معذرت پیش کی، پھر دونوں چل پڑے،راستے میں دونوں کی ایک لڑکے سے ملاقات ہوئی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اسے قتل کردیا، اس پر حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا : "آپ نے ایک بے گناہ کو بلا قصور ناحق قتل کردیا؟ آپ نے نہایت ناپسندیدہ حرکت کی" اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے اپنی پرانی بات دُہرائی،جس پر آپ نے اس شرط پر معذرت پیش کی کہ اگر میں نے آئندہ اس طرح کا کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنی رفاقت سے الگ کردیں۔ پھر ایک بستی میں آئے اور وہاں کے باشندوں سے کھانا مانگا، لیکن قریہ کے باسیوں نے میزبانی سے انکار کردیا، پھر دونوں نے بستی میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے اسے درست کردیا. اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ڈرتے ڈرتے کہا : اگر آپ چاہیں توگھروالوںسے مزدوری لے لیں( تاکہ کھانا خرید کر کھا یا جاسکے) حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : اب میرے اور آپکے درمیان جدائی کا یہی وقت ہے۔ پھر آپ نے ان واقعات کا سبب بیان کیا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر نہیں کرسکے۔
1) کشتی کے بارے میں بیان فرمایا کہ وہ کچھ غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے اور ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک لوگوں کو پہنچایا کرتے تھے، میں نے اس میں اس لئے سوراخ کردیا کہ اس علاقے کا بادشاہ ایک ظالم آدمی تھا جو ہر عمدہ اور صحیح سالم کشتی کو ظلمًا ہتھیالیا کرتا تھا، اس لئے میں نے اسے عیب دار بنایا تاکہ وہ اسے نہ لے، اس طرح میں نے ان پر احسان کیا ہے ظلم نہیں۔
2) جہاں تک لڑکے کے قتل کا تعلق ہے وہ یہ کہ وہ لڑکا پیدائشی کافر تھا اور اس کے والدین صاحب ایمان تھے، مجھے ڈر لگا کہ یہ بالغ ہوکرکہیں اپنے والدین کو بھی کفر
|