اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کواثر انگیز خطاب فرمایا، جس سے لوگوں کی آنکھیں بہہ پڑیں، قوم میں سے کسی شخص نے آپ سے سوال کیا :" اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سوچتے ہوئے کہ وقت کا پیغمبر سب سے بڑا عالم ہوتا ہے، فرمایا : ’’اس وقت دورِ حاضر کا سب سے بڑا عالم میں ہوں"۔. اﷲ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار گذری کہ آپ نے ایسا کیوں کہا ؟ "اللّٰہ أعلم" کیوں نہیں کہا ؟ پھر حکم دیا کہ جہاں دو سمندر ملتے ہیں وہاں میرا ایک بندہ رہتا ہے جو آپ سے علم ( کے چند گوشوں ) کو زیادہ جاننے والا ہے، آپ ان سے علم سیکھیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ایک شاگرد حضرت یوشع بن نون کے ساتھ اس مقررہ مقام پر پہنچے جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے آپ کو اس شرط پر اپنے ساتھ رکھنا منظور فرمایا کہ آپ انہیں کسی بات پر سوال نہیں کریں گے جب تک کہ وہ خود اس کی حقیقت نہ بیان کریں۔ جوابًاحضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :﴿ قَالَ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا وَلاَ اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا﴾ اگر اﷲ تعالیٰ چاہے تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گا۔
دونوں ایک کشتی پر سوار ہوئے اور کشتی والوں نے انہیں بغیر کرایہ کے ہی سوار کرالیا، بیچ سمندر میں پہنچ کر حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کردیا،اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نکیر کی اور فرمایا :"کیا آپ نے اس میں اس لئے شگاف ڈال دیا ہے کہ اس میں سوارلوگوں کو ڈبو دیں ؟ اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
|