Maktaba Wahhabi

98 - 360
20۔ ابو البقاء اپنی ’’کلیات‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی جانب سے نازل کردہ وحی کی حیثیت سے قرآن و حدیث ایک ہی اور باہم وابستہ ہیں جس کی دلیل یہ آیت ہے کہ: [إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ][1] – ان دونوں چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ اس حیثیت سے ہے کہ حدیث کے برخلاف قرآن اعجاز و تحدی کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کے الفاظ لوح محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں، جن میں تصرف کا حق اصلاً نہ جبریل علیہ السلام کو حاصل ہے اور نہ رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کو، لیکن احادیث اس بات کی متحمل تھیں کہ جبریل علیہ السلام پر ان کے حرفاً معانی نازل ہوں، جنہیں یا تو وہ عبارت کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کر دیں یا بذریعہ الہام آپ تک پہنچا دیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فصیح عبارت میں اس کو بیان فرما دیں۔‘‘ [2] 21۔ علامہ مفتی محمد شفیع صاحب ’’قرآن و سنت کی حقیقت‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں: ’’آیت نمبر: 113 یعنی [وَأَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ]میں کتاب کے ساتھ حکمت کو بھی داخل فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ حکمت جو نام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تعلیمات کا، یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی نازل کی ہوئی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کے الفاظ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں، اس لئے داخل قرآن نہیں، اور معانی اس کے اور قرآن کے دونوں اللہ ہی کی جانب سے ہیں، اس لئے دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔‘‘ [3] 22۔ آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے موافقات میں پوری تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری کی پوری کتاب اللہ کا بیان ہے، کیونکہ قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: [وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ]اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس خلق عظیم کی تفسیر یہ فرمائی: ’’كَانَ خُلُقُه القُرآنَ‘‘ اس کا حاصل یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی کوئی قول و فعل ثابت ہے وہ سب قرآن ہی کے ارشادات ہیں، بعض تو ظاہری طور پر کسی آیت کی تفسیر و توضیح ہوتے ہیں، جن کو عام اہل علم جانتے ہیں، اور بعض جگہ بظاہر قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں بطور وحی اس کا القاء کیا جاتا ہے، وہ بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی کے حکم میں ہوتا ہے، کیونکہ حسب تصریح قرآنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں ہوتی، بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے: [وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ [٣]إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ﴾، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام عبادات، معاملات، اخلاق، عادات، سب کی سب بوحی خداوندی اور بحکم قرآن ہیں، اور جہاں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی کام کیا ہے تو بالآخر وحی الٰہی سے اس پر کوئی نکیر نہ کرنے سے اس کی تصحیح اور پھر تائید کر دی جاتی
Flag Counter