ایسے عادل لوگ ہوں گے جو اسے حد سے تجاوز کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کی گھڑی ہوئی اور جاہلوں کی تاویل سے پاک کرتے رہیں گے۔‘‘ چوتھی اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جناب اصلاحی کے نزدیک ’’عقائد‘‘ اور ’’ایمانیات‘‘ وغیرہ کا تعلق ’’سنت‘‘ سے نہیں بلکہ احادیث سے ہے اور ’’سنت‘‘ کا انکار چونکہ ’’خود قرآن کے انکار کے ہم معنی ہے‘‘، لہٰذا عقائد و ایمانیات سے متعلق احادیث کا انکار آں موصوف کی نگاہ میں اتنا زیادہ اہم نہیں ہے کہ اسے ’’قرآن کے انکار کے ہم معنی‘‘ یعنی باعث کفر قرار دیا جا سکے، فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
اگر اصطلاحات کی تعین کا حق ہر شخص کو دے دیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہو گا جو اوپر جناب اصلاحی صاحب کے ضمن میں آپ نے ملاحظہ فرمایا، پس معلوم ہوا کہ ائمہ فن کی متعینہ اور متفقہ اصطلاح کے مقابلہ میں جناب اصلاحی صاحب کی بیان کردہ تعریف علماً و عملاً ہر دو طرح قطعاً لغو اور ناقابل قبول ہے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ منکرین حدیث نے جب بھی ’’حدیث‘‘ کا انکار کیا تو ’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کے مابین کسی تفریق کو ملحوظ نہیں رکھا تھا۔
کیا سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں بلکہ امت کے عملی تواتر پر ہے؟
آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب ’’سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں، بلکہ امت کے عملی تواتر پر ہے‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے، جن میں صدق و کذب، دونوں کا احتمال ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر معلوم ہوا بلکہ امت کے عملی تواتر پر ہے۔
جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔ مثلاً ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیار کیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں۔ آپ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے، ان سے تابعین رحمہ اللہ پھر تبع تابعین رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے، ان سے تابعین رحمہم اللہ پھر تبع تابعین رحمہم اللہ نے سیکھا۔ اسی طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے۔ اگر روایات کے ریکارڈ میں ان کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے، تو فبہا، اور اگر دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہرحال امت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی۔ اگر کسی معاملہ میں اخبار آحاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہو رہی ہے تو ان کی توجیہ تلاش کی جائے گی۔ اگر توجیہ نہیں ہو سکے گی تو بہرحال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا، اس لئے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت ان کے بالمقابل قطعی ہے۔
اخبار آحاد کے بالمقابل عمل اہل مدینہ کو ترجیح دینے کے باب میں مالکیہ کا مسلک اسی اصول پر مبنی
|