یہاں ان اعتراضات اور ان کے جوابات کو نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں، مختصراً یہ سمجھ لیں کہ:
’’إن هذا لهوا الضلال البعيد والعناد الشديد والجهل والقحة الزائدة‘‘[1]یعنی ’’(جو لوگ نسخ قرآن کے بارے میں مختلف وساوس کا شکار ہیں) وہ انتہا درجہ گمراہی، شدید عناد، جہالت اور خرافات میں مبتلا ہیں۔‘‘
کیونکہ اللہ عزوجل کے متعلق ہر ذی عقل اس حقیقت کا معترف ہے کہ ’’لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ‘‘ یعنی ’’اللہ عزوجل اپنے ہر فعل کے لئے غیر مسئول ہے۔‘‘ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’وما ههنا شيء أصلا إلا أن اللّٰه تعاليٰ أراد أن يحرم علينا بعض ما خلق مدة ثم أراد أن يبيحه و أراد أن يبيح لنا بعض ما خلق مدة ما ثم أراد أن يحرمه علينا ولا علة لشيء من ذلك كما لا علة لبعثه عليه الصلوة والسلام في العصر الذي بعثه دون أن يبعثه في العصر بعثه دون أن يبعثه في العصر الذي كان قبله و كما لا علة لكون الصلوة خمسا لا سبعا ولا ثلاثة‘‘[2]یعنی ’’(یہاں ان تمام اعتراضات کے بارے میں) اصل چیز یہ ہے کہ (یہ اللہ عزوجل کا ہی منشا و مصلحت تھی) کہ اس نے جس چیز کو ہمارے لئے کچھ مدت تک حرام بنائے رکھا پھر اسے ہی مباح کر دیا اور اسی طرح اپنی پیدا کردہ بعض اشیاء کو ایک مدت تک ہمارے لئے مباح رکھا پھر اسے ہمارے لئے حرام کر دیا۔ ان چیزوں کی کوئی علت اور وجہ نہیں بیان کی جا سکتی ہے جس طرح کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس خاص زمانے میں مبعوث فرمائے گئے اس سے قبل کے زمانہ میں کیوں نہ مبعوث کئے گئے؟ یا اسی طرح اس کی بھی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی جا سکتی ہے کہ نماز پانچ اوقات ہی کی کیوں فرض ہے؟ سات یا تین وقتوں کی کیوں نہیں ہے وغیرہ۔‘‘
ان شاء اللہ آگے کسی بھی مناسب موقع پر اس بارے میں مزید تفصیلات پیش کی جائیں گی۔
تیسری قسم
نسخ کی تیسری قسم (یعنی تلاوت باقی اور حکم منسوخ) کے بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
1- آیت: [لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ][3] یعنی ’’تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے‘‘ – لیکن سورۃ الکافرون کا یہ جزء منسوخ الحکم ہے، اگرچہ اس کی تلاوت باقی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین عرب کو دعوت اسلام دینے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے نہ کہ ان کے اپنے دین پر قائم رہنے پر اپنی رضا مندی کے اظہار کے لئے۔ پس ایک خاص حالت میں جبکہ مشرکین غالب تھے اور انہوں نے نہ صرف دعوت الٰہی کا انکار کیا بلکہ تمسخر بھی اڑایا تو اللہ عزوجل کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ’’آپ ان کافروں
|