Maktaba Wahhabi

317 - 360
تقیید مطلق اور تخصیص عموم القرآن کا مسئلہ تخصیص عام اور تقیید مطلق کو عموماً ’’زیادت علی الکتاب‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ و حافظ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ – ’’متقدمین کی اکثریت تخصیص پر نسخ کا اطلاق کیا کرتی تھی‘‘[1]۔ لہٰذا بعض علماء کو تخصیص عام اور تقیید مطلق کے بارے میں بھی نسخ کا شبہ ہوا ہے، لیکن ’’تخصیص‘‘ اور ’’نسخ‘‘ دو مختلف نوعیت کی چیزیں ہیں جیسا کہ باب ششم (اخبار آحاد کی حجیت، چوتھا حنفی اصول) کے تحت مفصل بیان کیا جائے گا۔ سنت متواترہ سے عموم قرآن کی تخصیص جائز ہونے کے بارے میں جمہور علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن اگر سنت کا تعلق اخبار آحاد سے ہو تو اس بارے میں علماء کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’عموم قرآن کی بعض خبر آحاد سے تخصیص کے بارے میں اختلاف ہے۔‘‘ [2] آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’کوفیوں کے نزدیک سنت عموم قرآن کی تخصیص نہیں کرتی۔‘‘ [3] بعض فقہاء حنفیہ کی کتب میں تعارض کے وقت عام کو خاص پر مقدم کر دینا یا خبر واحد کے ذریعہ عموم قرآن کی تخصیص کا جائز نہ ہونا بصراحت مذکور ہے۔ [4] اسی طرح بعض لوگوں نے تخصیص کا مطلقاً انکار بھی کیا ہے، لیکن ان کے مابین بھی تفصیل کا اختلاف ہے۔ فقہائے حنفیہ میں سے قاضی عیسیٰ بن ابان (ت 221ھ) کا موقف یہ ہے کہ اگر قرآن کی تخصیص مقطوع بہ دلیل کے ساتھ ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ مشہور حنفی فقیہ عبیداللہ بن الحسین ابو الحسین الکرخی (ت 340ھ) فرماتے ہیں: ’’اگر تخصیص اپنے مخصص کے ساتھ منفصل، یعنی دور دور ہو تو جائز ہے ورنہ متصل ہونے کی صورت میں جائز نہیں ہے۔‘‘ جبکہ قاضی محمد بن طیب بن محمد بن جعفر ابوبکر اشعری (403ھ) اس بارے میں توقف کو ترجیح دیتے ہیں۔ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جمہور عموم قرآن کی خبر آحاد سے تخصیص کے جواز کے قائل ہیں۔‘‘ [5]
Flag Counter