الفاضلۃ‘‘[1]میں امت کے نزدیک زیر مطالعہ حدیث کو تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ محدثین میں سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘[2]، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی ’’جامع‘‘[3]میں ’’باب مَا جَاء لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں ’’باب ابطال الوصية للوارث‘‘[4]، کے عنوانات سے مستقل ابواب قائم کئے ہیں جو امت کے نزدیک اس کی اہمیت اور تلقی بالقبول ہونے کی شہادت دیتے ہیں، پس جناب رحمت اللہ طارق صاحب کا اس حدیث کو بحیثیت مجموعی ’’صفر‘‘، ’’ضعیف‘‘ اور ’’ناقابل اعتماد‘‘ قرار دینا، یا بقول جناب خالد مسعود صاحب، جناب فراہی صاحب کا اپنی مستقل تصنیف ’’أحکام الأصول‘‘ میں ’’ترکہ میں وصیت کا حکم باقی‘‘[5]ہونے کا دعویٰ کرنا اصول اور انصاف سے بعید ہے، واللہ أعلم۔
مقام حیرت تو یہ ہے کہ جناب خالد مسعود صاحب خود ہی اپنے ایک مضمون: ’’احکام رسول کا قرآن مجید سے استنباط‘‘ میں اس حدیث کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
’’حديث لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ (وارث کے حق میں کوئی وصیت نہیں ہو سکتی) احکام میراث سے مستنبط ہے۔ وارثوں کے حصے بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے: [تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ](یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں) اس آیت سے احکام میراث میں ہر کمی و بیشی کی نفی ہوتی ہے۔ لہٰذا وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہو سکتی۔ اس کے حق میں جو وصیت ہے وہ خدا نے بیان کر دی اور پھر تصریح فرما دی کہ یہ خدا کی مقرر کردہ حدود ہیں اور جو شخص ان سے تجاوز کرے گا اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘ [6]
2- دوسری مثال
نسخ قرآن کی دوسری مثال اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
[إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ][7] یعنی ’’جب تم نماز کے لئے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو بھی کہنیوں تک اور مسح کرو اپنے سروں پر اور اپنے پیروں پر بھی ٹخنوں تک۔‘‘
لیکن پیروں پر مسح کرنے کا حکم اس سنت سے منسوخ ہوا کہ جس میں پیروں کو بھی دھونے کا حکم
|