داخل ہے پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور پانچ گھونٹ پینا موجب حرمت ٹھہرا پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور یہ چیز قرآن میں تلاوت کی جاتی تھی الخ۔‘‘
دوسری قسم
نسخ کی دوسری قسم (یعنی تلاوت منسوخ لیکن حکم باقی) کے متعلق یہ مشہور حدیث بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے:
’’عن عبداللّٰه بن عباس ان عمر يعني عمر بن الخطاب خطب فقال إِنَّ اللّٰه بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰه آيَةُ الرَّجْمِ ، فَقَرَأْنَاهَا ، وَعَقَلْنَاهَا ، وَوَعَيْنَاهَا ، رَجَمَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ : وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللّٰه ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللّٰه الخ‘‘[1]یعنی ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے خطاب فرماتے ہوئے کہا ہے کہ بےشک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ اللہ نے آپ پر نازل کیا اس میں آیت رجم بھی ہے۔ ہم نے اس آیت کی تلاوت کی اور اس کو محفوظ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رجم فرمایا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا لیکن مجھے خوف ہے کہ جب لوگوں پر زیادہ زمانہ گزر جائے گا تو کہنے والا یہ نہ کہے کہ کتاب اللہ میں ہمیں آیت رجم نہیں ملتی اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اس فریضہ کو ترک کر کے ضلالت و گمراہی میں جا پڑیں گے۔‘‘
بعض منکرین نسخ نے ان احادیث کا انکار کیا ہے، چنانچہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے قاضی ابوبکر باقلانی کے حوالہ سے لکھا ہے:
’’قاضی ابوبکر آیت رجم اور دیگر (منسوخ التلاوۃ) آیات کو قرآن کا حصہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا قول ہے کہ ’’لا يجوز القطع علي إنزال قرآن و نسخه بأخبار آحاد لا حجة فيها‘‘ (یعنی اخبار آحاد کے ذریعہ انزال قرآن اور اس کے نسخ کو قطعی سمجھنا جائز نہیں ہے کہ اس میں کوئی دلیل نہیں ہوتی)۔‘‘ [2]
علامہ ابو عبداللہ بن ظفر الصقلی رحمہ اللہ (568ھ) نے بھی اپنی کتاب ’’الینبوع‘‘ میں بطریق آحاد مروی ہونے
|