بن احمد بن الحسن قال نا محمد بن داؤد القنطري قال نا جبرون بن واقد قال نا سفيان بن عيينه عن أبي الزبير عن جابر قال قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم به وارد کیا ہے، اور فرماتے ہیں کہ ’’یہ باطل موضوع ہے۔‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’العلل المتناهية في الأحاديث الواهية‘‘ میں وارد کیا ہے اور فرماتے ہیں: ’’هذا حديث منكر‘‘[1]امام ذہبی اور علامہ برھان الدین الحلبی رحمہما اللہ نے بھی جبرون بن واقد کو متہم قرار دیتے ہوئے اس حدیث کو ’’موضوع‘‘ قرار دیا ہے۔ [2] علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی جبرون بن واقد کو متہم اور ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔ [3] پس ثابت ہوا کہ نسخ القرآن بالسنۃ کا انکار نہ قرآنی آیات سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث نبوی سے، واللہ اعلم۔
قرآن میں منسوخ آیات کی تعداد
آیات منسوخہ کی تعداد کی تحدید و تعیین کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ عام مفسرین کا خیال ہے کہ موجودہ قرآن میں 201 آیتیں اب بھی بالاتفاق منسوخ ہیں اور 363 وہ آیات منسوخہ ہیں جو قرآن میں شامل نہیں ہیں۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے تقریباً بیس آیات کو منسوخ قرار دیا ہے جبکہ شاہ ولی اللہ دہلوی صرف پانچ آیات کو ہی منسوخ قرار دیتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’قلت و علي ما حررنا لا يتعين النسخ إلا في خمس آيات‘‘[4]یعنی ’’میں کہتا ہوں کہ ہماری تحریر کے مطابق نسخ صرف پانچ آیات میں ہے۔‘‘
بعض آیات قرآن جن کا نسخ امت کے نزدیک سنت سے ثابت ہے
ذیل میں ان چند آیات قرآن کی مثالیں پیش ہیں جن کا نسخ امت کے نزدیک سنت سے ثابت ہے:
1- پہلی مثال
ارشاد ہوتا ہے:
[كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ][5] یعنی ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آ جائے، اگر وہ دولت چھوڑتا ہو تو وہ والدین اور اقارب کے لئے وصیت کر جائے۔‘‘
|