پر ہوئی ہو۔ احناف کے نزدیک عموم بلوی کی شکل میں (یعنی جہاں ضرورت کی نوعیت کا تقاضا یہ ہو کہ روایت متعدد طریقوں سے آئے) اخبار آحاد کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایسے امور میں وہ بسا اوقات اجتہاد و قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہ روایات جن کے حق یا باطل ہونے کا پہلو معین نہ ہو رہا ہو: تیسرے درجے میں صاحب ’’الکفایۃ‘‘ ان روایات کو لیتے ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے احکام روایت ہوئے ہیں جو باہم دگر مختلف ہیں اور یہ طے کرنا مشکل ہو رہا ہو کہ کس پر عمل کیا جائے، کس پر نہ کیا جائے، ایسی روایات کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ روایات کے الفاظ، قرآن و سنت کے نصوص اور دوسرے پہلوؤں پر غور کر کے ترجیح کی راہ اختیار کی جائے گی اور مرجح روایات قبول کی جائیں گی۔‘‘ [1]
خبر واحد کے بیان میں بعض اغلاط و اوہام کی وضاحت
ذیل میں بعض ان اغلاط و اوہام کی نشاندہی کی جائے گی جو کہ جناب اصلاحی صاحب کی سطور بالا میں موجود ہیں:
1۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’الکفایہ‘‘ میں ’’باب الکلام فی الاخبار و تقسیمھا‘‘ کے تحت پہلے ’’خبر‘‘ کی تعریف بیان کی ہے، پھر اس کی دو قسمیں بیان کرتے ہوئے ’’خبر التواتر‘‘ اور ’’خبر الآحاد‘‘ کی علیحدہ علیحدہ تعریفیں بیان کی ہیں، [2] پھر ردوقبول کے پہلو سے ان اخبار کے مدارج بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں: ’’والأخبار كلها علي ثلاثة أضرب‘‘[3]نہ معلوم جناب اصلاحی صاحب نے ’’الأخبار كلها‘‘ سے صرف ’’اخبار آحاد‘‘ کو ہی کیوں مراد لیا ہے؟ کہ یوں سرخی جمادی: ’’ردوقبول کے پہلو سے اخبار آحاد کے درجے‘‘، حالانکہ صاحب ’’الکفایہ‘‘ کے اس قول میں نہ ’’اخبار متواتر‘‘ کے لئے استثنائی حیثیت کا کوئی اشارہ موجود ہے اور نہ ہی ’’اخبار آحاد‘‘ کی تخصیص کا۔
2۔ آگے چل کر صاحب ’’الکفایۃ‘‘ اخبار کی اس پہلی قسم کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی صحت معلوم ہوتی ہے (وهو ما يعلم صحته) [4]اور اس سے علم ضروری حاصل ہوتا ہے خواہ وہ بطریق تواتر مروی بھی نہ ہو۔ ذیل میں ہم علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے اس بارے میں تفصیلی بیان کی ترجمانی ہدیہ ناظرین کرتے ہیں:
’’معرفت کے لئے یہ ضروری ہے کہ: (أ) وہ خبر ایسی ہو کہ جس کے موجب صحت ہونے پر عقل
|