باب دوم
قرآن و سنت کا باہمی تعلق
قرآن و سنت شریعت کے دو بنیادی مآخذ ہیں۔ دین کی اساس انہی دو چیزوں پر قائم ہے۔ اگرچہ حکم الٰہی ہونے کے اعتبار سے دونوں بجائے خود ایک ہی شئ ہیں لیکن کیفیت و حالت کے اعتبار سے یہ دو جدا شئ ہیں، مگر اس کے باوجود ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے، دونوں چیزیں دین کے قیام لئے یکساں طور پر ضروری اور اہم ہیں، ان کے درمیان روح اور قالب جیسا تعلق ہے۔ افادات فراہی کے ترجمان جناب خالد مسعود صاحب اپنے ایک مضمون ’’احکام رسول کا قرآن مجید سے استنباط‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’یہ ایک مسلمہ امر ہے جس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات شریعت کے احکام کی ایک مستقل بنیاد ہیں، خواہ یہ قرآن سے مستنبط ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دئیے ہوئے احکام کتاب الٰہی ہی سے مستنبط ہوتے تھے جیسا کہ متعدد احکام کے ضمن میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح فرمائی اور قرآن میں بھی اس پر نصوص موجود ہیں – الخ۔‘‘ [1]
پس ضروری ہوا کہ قرآن و حدیث دونوں کو دستور العمل اور حرز جان بنایا جائے، کیونکہ ان دونوں میں وہی نسبت ہے جو غذا اور پانی کی جسم سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے قرآن مجید ایک متن متین ہے جس میں بہت سے احکام اجمال و اختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، حدیث ان کی شرح و تفصیل بیان کرتی ہے، چنانچہ امام شاطبی الغرناطی رحمہ اللہ (م 790ھ) فرماتے ہیں:
’’فكان السنة بمنزلة التفسير والشرح لمعاني احكام الكتاب‘‘ [2]
’’گویا سنت کتاب اللہ کے احکام کے لئے بمنزلہ تفسیر و شرح کے ہے۔‘‘
بغیر احادیث کے ان مجمل احکام قرآن کو سمجھنا اور ان آیات کا موقع و محل پہچاننا ایسا دشوار ہے جیسے بغیر پانی کے تشنگی کا فرو ہونا یا بغیر بحری جہاز کے سمندر کا پار کر جانا۔ شیخ عبدالجبار عمر پوری رحمہ اللہ نے قرآن و سنت کے اس تعلق کو کس عمدہ پیرایہ میں بیان کیا ہے:
’’دل کی کوئی بات بغیر زبان کے ظاہر نہیں ہو سکتی اور زبان بغیر دل کے اشارہ و ارادہ کے حرکت نہیں کر سکتی، یہی کیفیت قرآن و حدیث کی ہے۔ قرآن تمام جہاں میں ایسا ہے جیسے انسان کے اندر دل اور حدیث
|