ہوتے اس میں ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام محمد رحمہ اللہ کے اس طعن سے پہلے تو بیزاری اس طرح ظاہر کی کہ تم اس شہر کو برا کہتے ہو؟ یا اس شہر کے رہنے والوں کو؟ اگر شہر کو برا کہتے ہو تو یہ شہر مہبط وحی و جبریل علیہ السلام ہے، اور اگر اس شہر والوں کو برا کہتے ہو تو یہاں کے شہری مہاجرین و انصار ہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ کو امام شافعی رحمہ اللہ کے اس جواب سے عبرت ہوئی تو امام شافعی رحمہ اللہ نے ان کے طعن کا سبب دریافت کیا۔ امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا: علمائے مدینہ ایک گواہ اور قسم کی بنا پر اخبار آحاد سے فیصلہ جائز رکھتے ہیں حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو گواہوں کی شہادت کا حکم بیان فرمایا ہے، امام شافعی رحمہ اللہ نے پوچھا کیا آپ کے نزدیک خبر واحد سے قرآن پر زیادتی نہیں ہو سکتی؟ امام محمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں یہ زیادتی نہیں ہو سکتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ گویا ہوئے کہ ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے سے آپ منع کرتے ہیں اور اسے زیادت علی الکتاب کہتے ہیں تو قرآن مجید میں وارثوں کے حق میں وصیت کا حکم ہے، آپ خبر واحد (حديث لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ) کی بنا پر وارث کے لئے وصیت کو کیوں ناجائز قرار دیتے ہیں یا اثاث البیت کے مقدمہ میں اگر مرد اور عورت دونوں مدعی ہوں اور کوئی گواہ موجود نہ ہو تو آپ کیوں کر فیصلہ کرتے ہیں؟ امام محمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ عورت کی مخصوص چیزیں عورت کو دلاتے ہیں اور مرد کی مخصوص چیزیں مرد کو، تو امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی خبر واحد بھی موجود نہیں ہے، تو آپ نے قرآن پر زیادتی کیوں کی؟ یہ سن کر امام محمد رحمہ اللہ لاجواب ہو گئے۔‘‘ [1]
پس اس بارے میں پسندیدہ مذہب وہی ہے جسے ائمہ اربعہ نے اختیار کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں ’’انواع بیان‘‘ میں سے ’’سنت سے بیان القرآن‘‘ کے ضمن میں ایک مستقل باب اس عنوان کے ساتھ باندھا ہے: ’’باب ما نزل عاما دلت السنة خاصة علي أنه يراد به الخاص‘‘ اور اس میں بتایا ہے کہ ’’انواع بیان‘‘ میں سنت سے بیان القرآن دراصل سنت سے عموم قرآن کی تخصیص ہے۔‘‘ [2]
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی ’’الاحکام‘‘ میں اسی رائے کو درست قرار دیا ہے اور سنت سے تخصیص قرآن کے جواز پر متعدد مثالوں سے استدلال کیا ہے۔ [3]
تخصیص عموم قرآن پر جمہور کی حجت
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے:
|