Maktaba Wahhabi

59 - 360
وحی کے کچھ حصہ کو ’’الفاظ‘‘ میں اور کچھ کو ’’معانی‘‘ میں نازل کئے جانے کی مصلحت اللہ عزوجل نے تمام سابقہ شریعتوں پر شریعت محمدی کو دیگر فضائل کے علاوہ ایک اہم فضیلت یہ بھی بخشی ہے کہ اپنے نازل کردہ احکام کے کچھ حصہ کو ’’الفاظ‘‘ کے ساتھ نازل فرمایا اور کچھ کو ’’معانی‘‘ کے ساتھ۔ یہ اس کی انتہائی رحمت و حکمت کا ہی تقاضہ تھا کہ اس نے وحی کو اس طرح دو اقسام میں تقسیم فرما دیا۔ اس کی ایک قسم، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، وہ ہے جس کی روایت بالمعنی جائز نہیں بلکہ اصل منزل الفاظ کا التزام ہی ضروری ہے جبکہ وحی کی دوسری قسم کی روایت بالمعنی ان لوگوں کے لئے جائز ہے جو اس کی اہلیت سے بہرہ ور ہوں۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے دراصل اپنے بندوں پر اپنی عنایات خصوصی سے تنگی و تکلیف کا ازالہ فرمایا ہے۔ چونکہ حدیث سے اصل الفاظ کا التزام اور اس کی تلاوت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اصلی مراد و مطلوب تو اس کا مضمون ہوتا ہے لہٰذا سنت کے الفاظ کو معنی کی علامت ٹھہرانے سے امت مسلمہ کو جو سہولت میسر آ سکی ہے وہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وحی کی اس تقسیم میں تحفظ شریعت و سہولت امت اور اتمام حجت کا راز پوشیدہ ہے، اگر وحی بہردوصنف میں قرآن کریم کی طرح ہی منزل الفاظ کا التزام و اہتمام ضروری ہوتا تو انسانی زندگی کے امور جس قدر کثیر ہیں وہ کسی ایک کتاب میں نہیں سما پاتے بلکہ ان کے لئے تو کئی ضخیم دفاتر درکار ہوتے۔ ایسی صورت میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امت کس قدر بڑی دشواری میں مبتلا ہو سکتی تھی، عین ممکن تھا کہ وہ اس عظیم ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برآ نہ ہو سکتی۔ اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث باب پنجم: ’’روایت بالمعنی اور اس کے بعض مضمرات کا جائزہ‘‘ کے تحت پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
Flag Counter