Maktaba Wahhabi

49 - 84
اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔(التوبۃ:122) یعنی ہر گروہ میں سے ایک جماعت دین کا کام سیکھنے کے لئے کیوں نہیں نکلتی تاکہ وہ لوٹ کر اپنی قوم کو ڈرائیں شاید کہ وہ ڈر جائیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اس سے مراد اصحاب حدیث ہیں۔ امام ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کے ان سفروں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس امت سے بلاؤں کودور کر دیتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں السائحون جو قرآن کریم میں ہے اس کی تفسیر حدیث کے طالب علم ہیں۔ امام علی بن معبد رحمہ اللہ اہل حدیث کو دیکھ کر فرمایا کرتے یہ پراگندہ بالوں والے میلے کپڑوں والے، غبار آلود چہروں والے بھی اگر ثواب کے مستحق نہیں تو اللہ کی قسم یہ صریح ناانصافی ہے۔ شیخ ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم ہمارا عقیدہ ہے جس میں ہمیں کوئی شک نہیں کہ حدیث کے طالب علم بڑے بڑے ثوابوں کے مستحق ہیں اور چھوٹے سے چھوٹا فائدہ ان کا یہ ہے جو اما م وکیع بن جراح رحمہ اللہ بیان فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص حدیث سے کچھ اور فائدہ حاصل نہ کرے لیکن کم سے کم یہ علم اسے بدعقیدگی سے تو ضرور روک دے گا تو کیا یہی فائدہ کچھ کم ہے؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ حدیث لکھتے تو ہیں لیکن اس کااثر ان پرنہیں دیکھا جاتا اور نہ ان کاوقار ہوتاہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ مآل اور انجام اس کا خیرو برکت ہی ہے۔ امام ایوب رحمہ اللہ کو جب کبھی کسی حدیث والے کے انتقال کی خبر پہنچتی تو اتنا صدمہ اور رنج کرتے کہ چہرہ غمگین ہوجاتا اور جب کبھی انہیں کسی عابد کے انتقال کی خبر ہوتی تو یہ بات اس کے چہرے پر نہ دیکھی جاتی تھی۔
Flag Counter