Maktaba Wahhabi

198 - 360
مقتضائے طبائع کی دہائی دیتے، غرض نت نئے شبہات پیدا کرنا اس طبقہ کا محبوب مشغلہ تھا تاکہ ان وساوس کو سادہ لوح مسلمانوں پر پیش کر کے انہیں دین حنیف سے برگشتہ و متنفر کیا جا سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو اپنے بعد جھوٹے مدعیان نبوت کے ظہور کی اطلاع دی تھی، ٹھیک اسی طرح فتنہ انکار حدیث سے بھی نہایت واضح الفاظ میں باخبر فرمایا تھا، چنانچہ ابو رافع مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا أُلْفِيَنَّ أحدَكُمْ متكئًا عَلى أَريكتِهِ يَأْتِيهِ أَمرٌ مِمَّا أمرتُ بهِ أَوْ نهيتُ عَنْهُ فَيَقُولُ : لَا أَدْرِي . مَا وَجدنَا فِيْ كِتَابِ اللّٰه اتبعناهُ‘‘ [1] یعنی ’’میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو، پھر اس کے پاس جب میرے احکام میں سے کوئی امر (حکم) یا نہی پہنچے تو وہ کہنے لگے، میں اس کو نہیں جانتا، ہم تو جو چیز کتاب اللہ میں پاتے ہیں صرف اسی کی اتباع کرتے ہیں۔‘‘ اگر بغور دیکھا جائے تو دعویٰ نبوت اور انکار حدیث دونوں ہی فتنے دین کو مسخ کرنے میں باعتبار مضرت اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن ان کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اجراء نبوت کا فتنہ ایک امتی کو اللہ کے نبی کا درجہ دے دیتا ہے جبکہ انکار حدیث کا فتنہ اللہ کے نبی کو نبوت کے درجہ سے گرا کر اپنے ہی جیسا ایک عام امتی بنا ڈالتا ہے۔ کیا ایک ہی معاملہ میں سنت نبوی مختلف بھی ہو سکتی ہے؟ زیر مطالعہ باب کے اختتام پر جناب اصلاحی صاحب نے ایک سرخی یوں قائم کی ہے: ’’ایک ہی معاملہ میں سنت مختلف بھی ہو سکتی ہے‘‘ اور اس کے تحت تحریر فرماتے ہیں: ’’اسی طرح لوگ اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں کہ ایک ہی معاملہ میں سنت مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ اس ناواقفیت کے سبب سے خود اہل سنت کے درمیان مختلف فرقے بن گئے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو مخالف سنت کا ملزم ٹھہراتے ہیں حالانکہ اگر وہ انصاف سے کام لیں تو یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ایک ہی معاملہ میں سنت مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر روایات میں آتا ہے کہ حج کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ بیٹھ گئے اور لوگوں کے وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے شروع ہوئے۔ کوئی کہتا کہ حضور، میں نے فلاں کام اس
Flag Counter