کرنا جائز ہے، حالانکہ نص کا بعض خود بھی نص ہی ہوتی ہے تو خواہ نص کے کچھ حصہ کا رفع ہو یا تمام نص کا، اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ یہ دونوں یکساں اور برابر ہیں، لہٰذا ان کے مابین کسی چیز میں کوئی تفریق نہیں ہے۔‘‘ [1]
منکرین نسخ کے بعض دلائل اور ان کا جائزہ
امام مروزی اور امام ابن حزم رحمہما اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے مندرجہ بالا دلائل کا خوب تفصیلی تعاقب کیا ہے۔ یہاں ان کی پوری بحث نقل کرنے کی تو گنجائش نہیں البتہ کچھ مفید اقتباسات ہدیہ قارئین ہیں:
امام مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ عزوجل نے قرآن میں [مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا﴾‘‘ (یعنی ’’جس آیت کو ہم منسوخ کرتے یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر (کوئی دوسرا حکم) لے آتے ہیں‘‘) فرمایا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ ’’نأت بآية خير منها ولا بقرآن خير منها‘‘ (یعنی اس سے بہتر ’’آیت‘‘ یا اس سے بہتر ’’قرآن‘‘ لے آتے ہیں)۔ پس یہاں ’’اس سے بہتر‘‘ یا ’’اسی کے مثل‘‘ سے مراد دوسرا حکم ہے، جو متلو و غیر متلو دونوں ہو سکتا ہے۔
سفیان بن عیینہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے اس آیت کی قرأت کی تو مجھے اس کی معرفت تامہ حاصل نہ ہوئی، میں کہتا تھا کہ یہ بھی قرآن ہے اور وہ بھی قرآن، تو اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے کس طرح بہتر ہو سکتا ہے؟ حتی کہ اس آیت کی تفسیر مجھ پر یوں عیاں ہوئی کہ اس سے ہم تمہارے لئے بہتر شئ لاتے ہیں جو تمہارے لئے پہلے سے زیادہ آسان، زیادہ خفیف اور اھون ہوتی ہے۔‘‘ [2]
اور امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں ان کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ قرآن کا بعض حصہ اس کے دوسرے حصص سے بہتر اور باعث خیر نہیں ہے، لہٰذا اس آیت [نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا]کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تمہارے لئے ’’اس سے بہتر‘‘ یا ’’اسی کے مثل‘‘ چیز یا حکم لاتے ہیں – اور بلاشبہ ناسخ پر عمل کرنا منسوخ پر عمل سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ناسخ پر عمل کا اجر تنسیخ سے قبل منسوخ پر عمل کے اجر کے مثل ہی ہوتا ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر ہو۔‘‘ [3]
آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: [وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ]سے بھی احتجاج
|