Maktaba Wahhabi

100 - 360
سنت نبوی بھی قرآن کی طرح محفوظ ہے ہمارا یقین ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حفاظ کو قرآن محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی اسی طرح حفاظ حدیث کو بھی احادیث نبوی کی حفاظت کی توفیق بخشی ہے، کیونکہ اگر حدیث دین ہے تو اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی حق تعالیٰ کو ہی ہونا چاہئے ورنہ دین ناقص رہ جائے گا۔ بعض لوگ بلاوجہ یہاں اس بے اطمینانی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ رواۃ اور حفاظ حدیث ’’بہرحال تھے تو انسان ہی، انسانی علم کے لئے جو حدیں فطرتاً اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں ان کے آگے تو وہ بھی نہیں جا سکتے تھے (پس) انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان (حفاظ حدیث) کے کام بھی محفوظ نہ تھے‘‘[1]۔ لیکن یہ بے اطمینانی دراصل تحفظ دین کے بنیادی فلسفہ اور طریقہ کار سے لاعلمی کا نتیجہ ہے جس طرح اجماع امت میں ہر فرد محفوظ نہیں ہوتا لیکن بحیثیت مجموعی مجتہدین کو عصمت کا مقام حاصل ہوتا ہے، ٹھیک یہی صورت حفاظ قرآن کی بھی ہے۔ کسی نے ان کو غیر انسان یا اللہ کی مقرر کردہ فطری حدود سے ماوراء نہیں سمجھا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ان کی انسانی کاوشوں کو بحیثیت مجموعی غیر محفوظ نہیں سمجھتا، پھر کیا وجہ ہے کہ احادیث نبوی کو روایت کرنے والے وہی صحابہ، رواۃ اور حفاظ جنہوں نے قرآن کو بھی حفظ و نقل کیا ہے، حفظ و روایت قرآن میں تو معتبر پائے جائیں لیکن روایت حدیث میں انہیں مشتبہ سمجھا جائے۔ اگر وہ لوگ نقل و روایت اور ضبط و حفاظت کے معاملہ میں تحریف و تساہل کے خوگر تھے تو جس طرح ان غیر محتاط رواۃ کی روایت کردہ احادیث ناقابل اعتماد ہیں اسی طرح ان کی روایت و نقل سے آئی ہوئی آیات اللہ (قرآن) کا بھی اعتبار باقی نہیں رہنا چاہئے، لیکن ایسا کوئی بھی شخص نہیں کہتا۔ صدیوں سال قبل ان جیسے شکوک و شبہات کا علامہ شریک بن عبداللہ النخعی القاضی (م 177ھ) نے کیا خوب جواب دیا تھا جب کہ بعض لوگوں نے آں رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ ’’ایک گروہ صفات کے متعلق احادیث پر شبہ کا اظہار بلکہ ان کا انکار کرتا ہے۔‘‘ یہ سن کر شریک بن عبداللہ النخعی رحمہ اللہ نے پوچھا کہ ’’وہ لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ ’’وہ ان احادیث میں طعن کرتے ہیں۔‘‘ آں رحمہ اللہ نے جواب دیا: ’’جن لوگوں نے ان احادیث کو نقل کیا ہے، انہیں لوگوں نے قرآن کو بھی نقل کیا ہے، اور یہ بات کہ نماز پانچ وقت کی ہے، اسی طرح حج بیت اللہ اور رمضان کے روزوں کی تفصیلات وغیرہ سبھی چیزیں انہی لوگوں سے منقول ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کو انہیں احادیث کے ذریعہ پہچان سکتے ہیں (لہٰذا شبہ و انکار کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟)۔ [2] اب ہم ذیل میں قرآن کریم، سنت نبوی اور علماء سلف کے اقوال کی روشنی میں سنت نبوی کے محفوظ ہونے کے
Flag Counter