زیر بحث عنوان کے آخری پیراگراف میں جناب اصلاحی صاحب نے بجا طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ’’گروہ‘‘ کو ’’دین کا مرکز‘‘ قرار دیا ہے اور ان کے ’’عمل‘‘ کو ’’عملی تواتر‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کے جاننے کے لئے لامحالہ ’’روایات کے ریکارڈ‘‘ کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا – مگر افسوس کہ اسی ’’روایات کے ریکارڈ‘‘ کی اہمیت کو کم کرنے یا اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے آں موصوف نے چند سطور قبل صحابہ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین پھر بعد والوں کا اپنے اگلوں سے نسلاً بعد نسل کسی عمل کو سیکھتے چلے آنا بنیاد سنت (’’عملی تواتر‘‘) قرار دیا ہے۔
آگے چل کر آں محترم فرماتے ہیں: ’’اس وقت جو بھیڑ ایسے اعمال کی حامل ہے جو – اہل بدعت ہیں‘‘ – یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی عمل کا قرآن سے متناقض ہونا تو بہ آسانی معلوم ہو سکتا ہے، لیکن سنت سے متناقض ہونا ’’روایات کے ریکارڈ‘‘ (بالخصوص خیر القرون کے ریکارڈ) کی رہنمائی حاصل کئے بغیر کیوں کر ممکن ہے؟ اگر آں جناب افراد امت کے ’’عملی تواتر‘‘ کو کسوٹی بتائیں، تو اہل بدعت بھی اپنے آباء و اجداد سے نسلاً بعد نسل اپنا عمل منتقل ہونا ثابت کر دکھائیں گے۔ ان کو شکست صرف اسی وقت دی جا سکتی ہے جب کہ اپنے آباء و اجداد کے سلسلہ سے منتقل ہونے والے عمل کی کڑی آپ خیر القرون تک پہنچا دیں اور اس دور سعید سے ان کا تناقض واضح کریں، ساتھ ہی انہیں بھی اپنے بدعی اعمال کی کڑی خیر القرون تک پہنچانے کا چیلنج کریں، جو کہ کبھی پورا نہ ہو سکے گا – لیکن یہ چیلنج تو خود اصلاحی صاحب کی اپنی شکست کے مترادف ہو گا کیونکہ خیر القرون کی معرفت ’’روایات کے ریکارڈ‘‘ کی رہنمائی کے بغیر قطعاً ناممکن ہے۔
منکرین سنت سے جناب اصلاحی صاحب کے سوال کا جائزہ:
جناب اصلاحی صاحب ایک مقام پر نظریہ انکار حدیث کا رد فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نمازوں کے اوقات کیا کیا ہیں، نمازیں کتنی بار پڑھی جائیں اور کس طرح پڑھی جائیں؟ مختلف چیزوں پر زکوۃ کی مقدار کیا ہو؟ روزوں کی عملی شکل و صورت کیا ہے؟ حج کے مناسک کیا ہیں اور وہ کس طرح ادا کئے جائیں؟ مسلمانوں کے لئے ظاہری شکل و صورت میں کیا چیزیں امتیاز و شعار کی حیثیت رکھتی ہیں؟ اسلامی معاشرے میں کیا چیزیں امتیازی خصوصیات رکھتی ہیں؟ اسلامی نظام کی عملی شکل کیا ہوتی ہے اور اس طرح کے جتنے مسائل بھی ہیں ان میں سے کون سی چیز ہے جو امت کے عملی تواتر نے ہم تک منتقل نہیں کی ہے؟ یہ ساری چیزیں ہم نے صرف حدیث کی کتابوں ہی سے نہیں جانی ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے، مختلف طریقوں سے اور اتنے مختلف طریقوں سے جانی ہیں کہ ان کا انکار
|