Maktaba Wahhabi

226 - 360
بعض اہل علم کا قول ہے کہ جب قرآن کریم اور حدیث میں بظاہر تعارض ہو تو حدیث کو مقدم کرنا واجب ہے کیونکہ سورۃ النحل کی آیت (44) دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجمل ہے اور حدیث مبین، اور مبین چیز مجمل پر مقدم ہوتی ہے الخ‘‘[1]سنت کی اسی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام مکحول رحمہ اللہ سے نقلاً بیان فرمایا ہے: ’’الكتاب أحوج إلي السنة من السنة إلي الكتاب‘‘[2]’’قرآن سنت کا زیادہ حاجت مند ہے بہ نسبت اس کے کہ جتنی سنت کو قرآن کی حاجت ہے۔‘‘ خواہ مخواہ بعض لوگ امام اوزاعی و مکحول رحمہما اللہ کے اس قول سے وحشت کھاتے ہیں، حالانکہ بقول حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ سنت، محتملات قرآن کا فیصلہ بلکہ ان کی تعیین کرتی ہے اور قرآن کی مراد و منشا کو بیان کرتی ہے۔ اس کی مدد کے بغیر کتاب اللہ کے اصل مقصد و مطلب کو سمجھنا محال ہے۔ آں رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس قول کا مطلب یہ ہے: ’’يريد أنها تقضي عليه و تبين المراد عنه‘‘ [3] حدیث کیوں کر شارح قرآن ہے مندرجہ صدر دلائل و آثار سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ کتاب و سنت کا باہمی ربط و تعلق اسی قسم کا ہے جیسے مبِین اور مبَین میں ہوتا ہے۔ اب ذیل میں ہم یہ بتائیں گے کہ حدیث کیوں کر شارح قرآن ہے: 1۔ چونکہ کلام اللہ جوامع الکلم کی قبیل سے ہے اس لئے اس میں تاویلات کی گنجائش ہے لیکن قرآن کریم میں جو آیات مجمل یا مشکل ہیں، حدیث ان کی توضیح کرتی ہے، جو آیات عام ہیں ان کی تخصیص کرتی ہے اور جو مطلق ہیں ان کو مقید کرتی ہے تاکہ اس سے باطل تاویلات کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں اور کلام اللہ کا معنی و منشا متعین ہو جائے۔ اس کی چند مثالیں ان شاء اللہ آگے ’’قرآن کی روشنی میں باعتبار مضمون، احادیث کی قسمیں‘‘ کے زیر عنوان پیش کی جائیں گی۔ 2۔ شرح قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں وارد شدہ الفاظ کی خود شرح بیان فرمائیں، مثلاً آں صلی اللہ علیہ وسلم نے [ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ]سے مراد ’’یہودی‘‘ اور [ٱلضَّآلِّينَ]سے مراد نصاریٰ بیان فرمائی ہے۔ 3۔ شرح قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے احکام بیان فرمائیں جو قرآن کریم میں بیان کردہ احکام سے زائد ہوں۔ ایسے احکام کی چند مثالیں ان شاء اللہ آگے محولہ بالا عنوان کے تحت پیش کی جائیں گی۔ 4۔ شرح قرآن کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناسخ و منسوخ آیات کی نشاندہی فرماویں۔ اس کی چند مثالیں بھی ان شاء اللہ آگے پیش کی جائیں گی۔
Flag Counter