قبول کرنے یا نہ کرنے سے اصلاً کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر قرآن کی شرح بیان کرنے والی یا قرآن سے زائد حکم بیان کرنے والی یا بظاہر مخالف قرآن احادیث کو نظر انداز کر دیا جائے تو امت کے لئے قرآن کے صحیح مفہوم کو سمجھنا محال ہو کر رہ جائے گا، جو یقیناً ایک بڑا دینی خسارہ ہو گا۔
علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر بظاہر (اس لئے کہ حقیقی تعارض تو ممکن نہیں) دو آیتیں یا دو صحیح حدیثیں یا ایک آیت اور ایک حدیث باہم متعارض معلوم ہوں تو دونوں پر عمل کرنا واجب ہے اس لئے کہ دونوں اطاعت کے اعتبار سے مساوی الدرجہ ہیں، لہٰذا جب تک ممکن ہو دوسری کی خاطر ایک کو نظر انداز کرنا روا نہیں ہے اور اس پر عمل کرنے کی صرف ایک ہی صورت ممکن ہے کہ قلیل المعانی آیت یا حدیث کو کثیر المعانی آیت و حدیث سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو جو آیت یا حدیث کسی زائد حکم پر مشتمل ہو اس پر عمل کیا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وجوب مبنی بر یقین ہے اور یقین کو ظن کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی وضاحت و صراحت کر دی ہے، لہٰذا اس میں کسی پیچیدگی کا احتمال نہیں ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا: [الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ][1] آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کر دیا، نیز فرمایا: [تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ][2] اس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے۔‘‘ [3]
٭٭٭
نسخ قرآن کا مسئلہ
نسخ کی لغوی تعریف
لغت میں ’’نسخ‘‘ کے دو معنی ہیں: ایک معنی ہے ’’ازالہ‘‘ یعنی زائل کر دینا، اسی سے یہ محاورہ مستعمل ہے: ’’نسخت الشمس الظل‘‘ یعنی سورج نے سایہ کو زائل کر دیا۔ دوسرا معنی ہے نقل کرنا یا تحویل، جیسا کہ محاورہ ہے: ’’نسخت الكتاب‘‘ یعنی میں نے کتاب نقل کر لی، گویا ناسخ یعنی نقل کرنے والے نے منسوخ کو یعنی جس سے اس نے نقل کی، ختم کر کے رکھ دیا یا اسے کوئی اور شکل دے دی۔ اسی طرح بولا جاتا ہے ’’مناسخات في المواريث‘‘ یعنی وارث سے دوسرے کو مال منتقل کرنا اور ’’نسخت ما في الخلية من العسل والنحل إلي أخري‘‘ وغیرہ۔ [4]
|