اور کی سند پر یہ کام کرتا ہوں۔ پھر آخر کیا مضائقہ ہے اگر ہم ایک طریقے پر (جس پر بھی ہمارا اطمینان ہو) عمل کرتے ہوئے دوسرے کے طریقے کو بھی مبنی برحق سمجھیں اور بنائے وحدت پر متفق رہیں۔‘‘ [1]
اور
’’اہل حدیث، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی حضرات جن جن طریقوں سے نماز پڑھتے ہیں وہ سب طریقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور ہر ایک نے معتبر روایات ہی سے ان کو لیا ہے۔ اسی بناء پر ان میں سے کسی گروہ کے اکابر علماء نے یہ نہیں کہا کہ ان کے طریقے کے سوا جو شخص کسی دوسرے طریقے پر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ صرف بے علم لوگوں کا ہی کام ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنے طریقے کے سوا دوسرے طریقے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اسے ملامت کرتے ہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں ان سب طریقوں سے نماز پڑھی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو صرف اس امر میں کہ آپ عموماً کس طریقے پر عمل فرماتے تھے۔ جس گروہ کے نزدیک جو طریقہ آپ کا معمول بہ طریقہ ثابت ہوا ہے اس نے وہی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ میں خود حنفی طریقے پر نماز پڑھتا ہوں، مگر اہلحدیث، شافعی، مالکی، حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا ہوں اور سب کے پیچھے پڑھ لیا کرتا ہوں۔‘‘ [2]
استدراکات
]پیش نظر باب کے عنوان: ’’حدیث و سنت میں فرق، اصلاحی صاحب کی نظر میں‘‘ کے تحت ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کی صرف وہی عبارتیں نقل کی گئی تھیں جن پر کہ راقم کو بحث کرنی مقصود تھی، اور باقی عبارتوں کو قصداً چھوڑ دیا گیا تھا۔ اگرچہ ابتداءً ایسا کتاب کو غیر ضروری طوالت سے بچانے کی غرض سے ہی کیا گیا تھا لیکن مراجعہ و مقابلہ کے دوران یہ خیال ذہن میں ابھرا کہ کہیں اس سے بعض قارئین کو یہ شبہ نہ گزرے کہ محترم اصلاحی صاحب کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا ہے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی قاری کے پاس سرے سے ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کا کوئی نسخہ ہی موجود نہ ہو یا ہو بھی تو بار بار اس کی ورق گردانی میں دقت محسوس ہوتی ہو، لہٰذا ذیل میں محترم اصلاحی صاحب کے مضمون کی باقی ماندہ عبارتیں بھی بطور ’’استدراکات‘‘ پیش خدمت ہیں۔ قارئین کی سہولت
|