5۔ شرح قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم میں جو حکم مذکور ہو حدیث اس کی مزید تائید و تاکید کرے۔
کتاب اللہ پر سنت کے قاضی ہونے کا مطلب
امام اوزاعی رحمہ اللہ کے استاذ مشہور محدث امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ نے بھی اصول قرآنیہ کی توضیح میں سنت کے اہم کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا تھا:
’’السنة قاضية علي الكتاب، ليس الكتاب قاضيا علي السنة‘‘[1]’’سنت (احکام) قرآن کا فیصلہ کرنے والی ہے، قرآن سنت کا فیصلہ کرنے والا نہیں۔‘‘
بعض لوگ امام رحمہ اللہ کے اس قول سے خواہ مخواہ متوحش نظر آتے ہیں اور اسے استخفاف قرآن سے تعبیر کرتے ہوئے امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کی تحقیر سے اس قول کی حقانیت کو ماند کرنے اور اپنے دل کو بوجھ ہلکا کرنے کا سامان پیدا کرتے ہیں، مثال کے طور پر جناب رحمت اللہ طارق صاحب فرماتے ہیں:
’’آگے چل کر استخفاف قرآن کی یہاں تک جسارت کی گئی کہ یحییٰ بن ابی کثیر (متوفی 747ھ) جیسے کوتہ (کوتاہ) نظر محدث کے الفاظ بطور سند نقل ہونے لگے کہ: ’’قرآن و حدیث میں جب تضاد محسوس ہو تو اس صورت میں حدیث کو مقدم اور قرآن کو مؤخر کرنا چاہیے۔ ’’السنة قاضية علي الكتاب وليس الكتاب بقاض علي السنة‘‘ کیونکر سنت برتر ہے (اور اسے آگے ہی بڑھنا چاہیے) اور قرآن فروتر ہے (اور اسے پیچھے ہی ہٹنا چاہیے) اور برتر یا فیصلہ کن کو ہمیشہ فروتر پر فوقیت رہتی ہے۔‘‘ [2]
حالانکہ امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کا یہ قول استخفاف قرآن سے قطعاً عبارت نہیں بلکہ انتہائی پرمغز، امر واقعہ اور اپنے اندر معانی کا ایک وسیع سمندر سموئے ہوئے ہے جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا۔ جناب رحمت اللہ طارق صاحب کا امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کو ’’کوتاہ نظر محدث‘‘ بیان کرنا جس قدر خلاف واقعہ ہے اسی قدر امام رحمہ اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا بھی کہ آں رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن ایک ’’فروتر‘‘ یا ’’پیچھے‘‘ ہٹائے جانے کے لائق چیز ہے جبکہ سنت اس سے ’’برتر‘‘ اور ’’آگے‘‘ بڑھانے کے لائق ہے۔ ہمارے علم کے مطابق آں رحمہ اللہ نے کبھی اس قسم کی کوئی درجہ بندی نہ فرمائی تھی۔ جہاں تک قرآن و حدیث میں ’’تضاد محسوس‘‘ ہونے کی صورت میں سنت رسول کو ’’مقدم‘‘ کرنے اور ہر معاملہ میں اس سے ہی فیصلہ کروانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں خود قرآن ناطق ہے، جیسا کہ باب اول میں ’’اللہ تعالیٰ نے تاکیداً مکمل اطاعت رسول کا حکم دیا ہے‘‘ کے زیر عنوان
|