’’الفقیہ الحافظ‘‘ کے القاب سے ذکر کیا ہے۔ آپ نے ابو امامہ الباھلی، واثلہ بن الأسقع، انس بن مالک، محمود بن ربیع، عبدالرحمٰن بن غنم، ابو ادریس خولانی، ابو سلام ممطور اور ایک خلق کثیر مثلاً عقبہ بن ابی سفیان اور عبیداللہ بن محریز وغیرہ سے روایت کی ہے۔ آپ سے حدیث روایت کرنے والوں میں ایوب بن موسیٰ، علاء بن حارث، زید بن واقد، ثور بن یزید، حجاج بن ارطاۃ، اوزاعی، سعید بن عبدالعزیز اور بہت سے دوسرے محدثین مثلاً عکرمہ بن عمار، محمد بن اسحاق اور یزید الحمصی وغیرہ ہیں۔
ابن اسحاق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے مکحول رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علم کی تلاش میں اس روئے زمین کا چکر لگایا ہے۔‘‘ امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’علمائے حدیث چار ہیں‘‘ (اور ان میں ایک مکحول کو بھی ذکر کیا ہے۔) امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شام میں مکحول سے زیادہ کوئی فقیہ میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘ ’’ما أعلم بالشام أفقه من مكحول‘‘ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’كان مكحول أفقه من الزهري‘‘ (یعنی مکحول امام زہری سے زیادہ فقیہ تھے) خود امام مکحول رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ما استودعت صدري شيئا إلا وجدته حين أريد‘‘ امام عجلی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’آپ ثقہ تابعی تھے۔‘‘ امام ذہبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ’’صدوق، إمام، موثوق لكن ضعفه ابن سعد‘‘ آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: وہ اہل دمشق کے مفتی اور ان کے عالم تھے۔ متعدد ائمہ نے ان کو ثقہ بتایا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے انہیں ’’الفقیہ المشہور تابعی‘‘ اور ’’ثقہ فقیہ، کثیر الإرسال، مشہور‘‘ بتایا ہے، امام ابن حبان نے ان میں تدلیس کا وصف بیان کیا ہے، ابی بن کعب، عبادہ بن صامت اور عائشہ صدیقہ اور دیگر کبار صحابہ مثلاً ابی ثعلبہ الخشنی، ابو ھریرۃ، ثوبان اور ام ایمن سے روایت میں ارسال کرتے تھے۔ ابن خراش نے انہیں ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے حاشیہ [1]ملاحظہ فرمائیں۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ (م 157ھ)
امام ابو عمرو عبدالرحمٰن بن عمرو بن محمد الدمشقی رحمہ اللہ جو امام اوزاعی رحمہ اللہ کے نام سے معروف ہیں مشہور تبع تابعی تھے۔ آپ نے عطاء بن ابی رباح، قاسم بن مخیمرہ، شداد ابی عمار، ربیعہ بن یزید، زہری، محمد بن ابراہیم تیمی، محمد بن
|