سیرین، یحییٰ بن ابی کثیر، اور ایک خلق کثیر سے حدیث کا سماع کیا ہے: آپ کے تلامذہ میں شعبہ، ابن مبارک، ولید بن مسلم، ہقل بن زیاد، یحییٰ بن حمزہ، یحییٰ القطان، ابو عاصم، ابو المغیرہ، محمد بن یوسف الفریابی اور ایک کثیر خلق کا شمار ہوتا ہے۔
آپ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے بیان کردہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ ’’جب امام اوزاعی رحمہ اللہ حج کے لئے تشریف لے گئے تو امام مالک اور سفیان ثوری وغیرہ ائمہ آپ کے استقبال کے لئے نکلے۔ [1] امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے آپ کی سواری کی باگ دوڑ پکڑ رکھی تھی اور امام مالک رحمہ اللہ سواری کو پیچھے سے ہانکتے جاتے تھے۔ خانہ کعبہ کے قریب لا کر آپ کو ان حضرات نے سواری سے اتارا، پھر خانہ کعبہ کے پاس بٹھا کر اطمینان سے ان حضرات نے ان سے علم حدیث حاصل کرنا شروع کیا۔‘‘ [2]
آپ اس قدر وسیع علم کے جامع و حافظ تھے کہ امام زہری اور قتادہ وغیرہ جو امام اوزاعی رحمہ اللہ کے اساتذہ تھے، خود ان کے خوشہ چیں بن گئے تھے، حالانکہ امام اوزاعی تبع تابعی ہیں اور یہ حضرات کبار تابعین میں شمار کئے جاتے ہیں۔‘‘ [3]
محدثین امام اوزاعی رحمہ اللہ کے کثرت حافظہ کو دیکھ کر کہا کرتے تھے: ’’أي شيء كان لا يحفظ الأوزاعي‘‘ [4] یعنی ’’کون سی چیز ایسی ہے جو اوزاعی کو یاد نہیں۔‘‘ ہقل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’امام اوزاعی نے پیش آمدہ ستر ہزار حوادث و مسائل کے متعلق فتاویٰ لکھے تھے۔‘‘ [5] اسماعیل بن عیاش کا قول ہے کہ ’’الأوزاعي اليوم عالم الأمة‘‘ یعنی ’’اوزاعی آج امت کے عالم ہیں۔‘‘ اسی طرح خریبی کا قول ہے کہ ’’كان الأوزاعي أفضل أهل زمانه‘‘ یعنی ’’اوزاعی رحمہ اللہ اپنے ہم عصروں میں سب سے برتر تھے۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’وكان يصلح للخلافة‘‘ [6] یعنی آپ مسلمانوں کی امارت و خلافت کے منصب پر سرفراز کئے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔‘‘ ابو اسحاق فزاری کا قول ہے: ’’لو خيرت لهذه الأمة لاخترت لها الأوزاعي‘‘ [7] امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الأوزاعي إمام عصره عموما و إمام أهل الشام خصوصا‘‘ [8] امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’علم حدیث کے چار امام ہیں جن میں اول امام اوزاعی،
|