ساقط کرنے کا مرتکب ہوتا ہے، اور اس طرح اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اور آیت کریمہ: [وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ][1] یعنی ’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام الٰہی) کھول کھول کر بتا دے۔‘‘ سے عیاں ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کی ہر نص سے اس کا ظاہری مفہوم مراد لینا چاہیے۔ لہٰذا جو شخص اس سے وہ مفہوم مراد نہیں لیتا جس کے لئے وہ عربی زبان میں بولا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قول اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا اور اس پر افتراء پردازی کرتا ہے، جو شخص اس بات کا مدعی ہو کہ فلاں نص سے وہ پورا مفہوم مراد نہیں جو عربی زبان میں اس کے لئے مقرر ہےم بلکہ اس کے مفہوم کا کچھ حصہ مراد ہے وہ اپنے جھوٹے دعویٰ کی اساس پر حکم ربانی کی اطاعت کو ساقط کرنے والا ہے، اور اس کا یہ قول افتراء علی اللہ بھی ہے۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی آیت سے پورے ظاہری مفہوم کی نسبت اس کے ایک جزو کو مراد لینا أولی و أفضل ہو الخ۔‘‘ [2]
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’النسخ لا يثبت إلا بدليل‘‘[3]یعنی ’’نسخ بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا۔‘‘ اور فرماتے ہیں:
’’رفع تعلق حكم شرعي بدليل شرعي متأخر عنه‘‘ [4]
اور علامہ سخاوی رحمہ اللہ، حافظ رحمہ اللہ کا آخر الذکر قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’لكون الرفع لا يكون إلا بعد الثبوت خرج بيان المجمل والاستثناء والشرط و نحوها مما هو متصل بالحكم مبين لغايته لا سيما مع التقييد بالسابق الخ‘‘ [5]
کیا حدیث و سنت قرآن کی ناسخ ہو سکتی ہیں؟
قرآن سے قرآن کا نسخ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’بالاتفاق جائز ہے۔‘‘ [6] جو لوگ صرف قرآن سے قرآن کے نسخ کے قائل ہیں ان کے دلائل ان شاء اللہ آگے ’’امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے‘‘ کے تحت پیش کئے جائیں گے، جہاں تک سنت سے قرآن کے نسخ کا تعلق ہے تو یہ علماء کے درمیان ایک مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے۔ اس بارے میں علماء کے عموماً تین قسم کے اقوال ملتے ہیں:
(الف) امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے:
امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ میں سنت سے نسخ القرآن کے مطلقاً عدم جواز کی طرف گئے ہیں چنانچہ
|