1994ء) میں شائع ہو چکا ہے جس کا جواب مجلّہ ’’اشراق‘‘ کی مجلس ادارت کے رکن جناب ساجد حمید صاحب نے ’’اشراق‘‘ (ج 6 عدد 5 ص 12-32 مجریہ ماہ مئی 1994ء) میں دینا چاہا ہے، لیکن یہ جواب متعدد مغالطات، بے بنیاد دعووں اور خلط مبحث کا مجموعہ نظر آتا ہے، مگر یہاں ہر دو مضامین پر نقد و بحث ممکن نہیں ہے۔
اثر
اثر کا لغوی مفہوم:
’’اثر‘‘ کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کا باقی نشان، چنانچہ علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأما الأثر: فهو – لغة – البقية من الشيء، يقال: أثر الدار لما بقي منها‘‘ [1]
’’ماثورہ‘‘، ’’اثر‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’ماثورہ‘‘ کے معنی منقولہ ہیں۔ [2]
اہل عرب کہتے ہیں: ’’أثرت الحديث‘‘ یعنی ’’جب تو کسی سے کوئی بات کرے۔‘‘ حافظ سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ (أثرت الحديث) کے معنی رويته ہیں۔‘‘ [3]
’’محدث‘‘ کو ’’اثر‘‘ کی نسبت ہی سے ’’اثری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔‘‘ [4]
اثر کا اصطلاحی مفہوم:
فقہائے خراسان کے نزدیک جو روایت صحابہ اور تابعین پر ’’موقوف‘‘ ہو اسے ’’اثر‘‘ کہا جاتا ہے اور ’’مرفوع‘‘ کو ’’خبر‘‘ یا ’’حدیث۔‘‘ [5]
ڈاکٹر نور الدین عتر فرماتے ہیں:
’’وأما الأثر فقد خصه فقهاء خراسان بالموقوف اصطلاحا، ومنهم جماعة خصوا المرفوع بالخبر‘‘[6]یعنی ’’اثر کو فقہاء خراسان نے اصطلاحاً موقوف کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ان میں سے ایک جماعت ایسی ہے جس نے خبر کو مرفوع کے لئے مخصوص کیا ہے۔‘‘
|