Maktaba Wahhabi

151 - 360
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب، کہ جس میں آثار موقوفہ بیان کئے گئے ہیں، کا نام ’’الآثار‘‘ رکھا ہے، لیکن محدثین کی اصطلاح میں ’’اثر‘‘ خبر کے مترادف ہے، [1] لہٰذا محدثین مرفوع اور موقوف دونوں کو ’’اثر‘‘ کہتے ہیں۔ [2] مثلاً امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ کے خطبہ میں ایک مشہور مرفوع حدیث کو ’’اثر‘‘ قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’دلت السنة علي نفي رواية المنكر من الأخبار كنحو دلالة القرآن علي نفي خبر الفاسق وهو الأثر المشهور عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ ‘‘ [3] گویا امام رحمہ اللہ کے نزدیک ’’حدیث‘‘ اور ’’اثر‘‘ ہم معنی اصطلاحات ہیں۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’بعض لوگوں نے چونکہ حدیث کو صرف مرفوع اور موقوف تک ہی مخصوص رکھا ہے اس لئے مقطوع کو اثر کہا جاتا ہے۔ بعض دفعہ مرفوع حدیث پر بھی اثر کا اطلاق ہوتا ہے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کو ادعیہ ماثورہ کہا جاتا ہے، اور جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام ’’شرح معاني الآثار المختلفة المأثوره‘‘ رکھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع احادیث اور آثار صحابہ پر مشتمل ہے۔ اور بقول امام سخاوی، امام طبری کی ایک کتاب کا نام تہذیب الآثار ہے [4] حالانکہ وہ بھی مرفوع حدیثوں کے لئے خاص ہے اور اس میں موقوف روایات محض ضمنی طور پر ہی لائے ہیں۔‘‘ [5] علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الأثر: ما روي عن الصحابة، ويجوز إطلاقه علي كلام النبي أيضاً‘‘ [6] علامہ عبدالحی لکھنوی کا قول ہے: ’’وأما الأثر فهو لغةً – و اصطلاحا: هو المروي عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم أو عن صحابي أو تابعي مطلقا و بالجملة مرفوعا كان أو موقوفا و عليه جمهور المحدثين من السلف والخلف وهو المختار عند الجمهور كما ذكره النووي في شرح صحيح مسلم[7]۔‘‘ [8] جناب سعید احمد پالن پوری (استاذ دارالعلوم دیوبند) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ’’نخبة الفكر في مصطلح
Flag Counter