مشترک تمام روایات میں درجہ تواتر کو پہنچا ہوا ہو مثلاً معجزات نبوی، دعاء میں ہاتھ کا اٹھانا وغیرہ۔‘‘ [1]
خبر متواتر کا حکم:
خبر متواتر سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے، ایسا یقینی علم کہ انسان قطعی طور پر اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس طرح کوئی شخص کسی واقعہ کا بذات خود مشاہدہ کرے تو وہ اس کی تصدیق کرنے میں ہرگز تردد نہیں کر سکتا، خبر متواتر کی صورت بھی یہی ہوتی ہے۔ اسی بناء پر خبر متواتر ساری کی ساری قابل قبول ہوتی ہے اور اس کے راویوں کے احوال پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فالأول المتواتر وهو المفيد للعلم اليقيني۔۔الخ‘‘ [2]
یعنی ’’اخبار میں پہلی قسم کا نام متواتر ہے اور یہ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صبحی صالح فرماتے ہیں:
’’ولا خلاف بين المحدثين في أن كلا من المتواتر اللفظي والمعنوي يوجب العلم القطعي اليقيني‘‘ [3]
یعنی ’’محدثین کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ متواتر کی دونوں اقسام، لفظی و معنوی علم قطعی و یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔‘‘
لیکن بعض علماء کا خیال ہے کہ خبر متواتر سے ’’علم ضروری‘‘ نہیں بلکہ ’’علم نظری‘‘ حاصل ہوتا ہے، لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’علم نظری‘‘ کے قائلین پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ عامۃ الناس جن میں نظر و استدلال کی اہلیت نہیں ہوتی ان کو بھی خبر متواتر سے صحت کا علم حاصل ہوتا ہے، لہٰذا خبر متواتر سے حاصل ہونے والا علم نظری نہیں ہو سکتا۔ آں رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’إن الخبر المتواتر يفيد العلم الضروري وهو الذي يضطر الإنسان إليه بحيث لا يمكن دفعه وقيل: لا يفيد العلم إلا نظريا، وليس بشيء لأن العلم بالمتواتر حاصل لمن ليس له أهلية النظر كالعامي، إذ النظر ترتيب أمور معلومة أو مظنونة يتوصل بها إلي علوم أو ظنون غير معلومة وليس في العامي أهلية ذلك، فلون كان نظريا لما حصل لهم ۔۔ الخ‘‘ [4]
|