Maktaba Wahhabi

35 - 360
احوال واقعی إِنَّ الْحَمْد للهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللّٰه فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمْنْ يَضْلُلُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللّٰه وَحْدُهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،أما بعد: تقریباً ساڑھے چار سال قبل ’’الجامعۃ الاسلامیہ لاہور‘‘ اور ’’المعھد العالی للشریعہ والقضاء‘‘ لاہور (پاکستان) کے شیخ الجامعہ جناب حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب، حفظہ اللہ تعالیٰ و تولاہ، نے اپنے موقر جامعہ کی جانب سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما (’’الدبلوم العالی فی الفقہ و أصولہ‘‘) کی سند کے اجراء کے سلسلہ میں بحث کے لئے راقم کے ذوق کی مناسبت سے ’’عصر حاضر میں غز و فکری‘‘ سے متعلق کوئی بھی عنوان منتخب کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اشارتاً یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ اگر اس ضمن میں برصغیر پاک و ہند میں انکار و استخفاف حدیث کے جدید فتنوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ سرسید اور پرویز کے بعد ہند میں جناب محمد تقی امینی صاحب (سابق ڈین، فیکلٹی آف تھیالوجی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) اور پاکستان میں جناب امین احسن اصلاحی صاحب کی علم حدیث و محدثین کے عظیم کام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور نامبارک مساعی کا مؤثر توڑ بھی ہو گا‘‘[1]– راقم نے آں حفظہ اللہ کے حکم کی بجا آوری کے لئے کافی غوروفکر کے بعد عصر حاضر میں فراہی مکتب فکر کے شارح اور مفسر قرآن جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے مخصوص افکار حدیث کے علمی جائزہ پر اپنی بحث مرتب کرنے کا عزم کیا۔ جناب محمد تقی امینی صاحب کے مقابلہ میں جناب امین احسن اصلاحی صاحب جیسے پختہ کار عالم کے نظریات پر تحقیق کو ترجیحاً منتخب کرنے کے متعدد اسباب میں سے تین اہم سبب یہ ہیں: 1۔ طالب علمی کے زمانہ میں جناب مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا ایک مقالہ: ’’جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث‘‘ نظر سے گزرا تھا۔ اس میں آں رحمہ اللہ نے محترم اصلاحی صاحب کو بھی جناب شبلی، حمید الدین فراہی، ابو الاعلیٰ مودودی اور عام فرزندان ندوہ، باستثناء سید سلیمان ندوی، کے ساتھ اپنی اس جدول میں شامل کیا تھا جس کے متعلق آں رحمہ اللہ کی رائے خود ان کے الفاظ میں یہ تھی: ’’یہ حضرات حدیث کے منکر نہیں، لیکن ان کے انداز فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے اور طریقہ گفتگو سے انکار کے لئے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔‘‘ [2]
Flag Counter