نہیں بلکہ ظاہری ہوتا ہے، اسی طرح احادیث کے مابین نظر آنے والا تعارض بھی غیر حقیقی ہوتا ہے۔ اس ظاہری تعارض یا تصادم کو تطبیق وغیرہ کے ذریعہ بہ آسانی رفع کیا جا سکتا ہے۔ ہماری اس تحقیق کو حافظ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے اس قول سے مزید تقویت ملتی ہے: ’’لا أعرف أنه روي عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم حديثان بإسنادين صحيحين متضاد فمن كان عنده فليأت به حتي أولف بينهما‘‘[1]یعنی ’’میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی دو صحیح السند روایات کے درمیان کبھی (حقیقی) تعارض بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس ایسی دو حدیثیں موجود ہوں تو انہیں میرے پاس لائے، میں یقیناً ان کے مابین جمع و تطبیق کی شکل واضح کر کے دکھا دوں گا۔‘‘
تیسری قابل اعتراض چیز یہ ہے کہ اگر کسی طور پر یہ مان بھی لیا جائے کہ قرآن کریم میں تو نہیں، لیکن احادیث کے مابین نظر آنے والا تعارض حقیقی ہوتا ہے، تو بھی دو متعارض احادیث کے بیچ رفع تعارض کی کسی کوشش کے بغیر ڈائریکٹ ترجیح کی راہ کو ہی اختیار کرنے کا مشورہ دینا اصول حدیث کے خلاف ہے۔ ضابطہ یہ ہے کہ اگر دو ایسی متعارض احادیث موجود ہوں کہ ان کے مابین رفع تعارض کی تمام صورتوں میں سے جمع و تطبیق کی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو اور نہ ان میں سے کسی کے ناسخ و منسوخ ہونے کا پتہ چل سکے تو بلاشبہ ترجیح کے طریقہ کار کو ہی اپنایا جائے گا، گویا ترجیح کا مرحلہ اس سلسلہ کی آخری کڑی ہے جس کو ابتدائی دو مراحل کی ناکامی کی صورت میں ہی اپنایا جاتا ہے۔
چوتھی قابل اعتراض چیز یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے یہاں ترجیح کے جو اسباب بیان کئے ہیں، ان میں صرف ’’ترجیح باعتبار متن‘‘ اور بعض ’’ترجیح باعتبار امور خارجہ‘‘ کا ہی تذکرہ فرمایا ہے۔ ترجیح کے دوسرے دو اسباب یعنی ’’ترجیح باعتبار سند‘‘ اور ’’ترجیح باعتبار مدلول‘‘ کا یہاں تذکرہ نہ کرنا ناقابل فہم ہے۔
پھر جناب اصلاحی صاحب نے ’’سنت‘‘ کی ’’تعریف‘‘، ’’سنت کی ضرورت‘‘ اور ’’قرآن و سنت کے (کا) باہمی نظام‘‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ ان موضوعات کا تذکرہ چونکہ اوپر کے صفحات میں گزر چکا ہے، لہٰذا ہم آگے چلتے ہیں:
سنت کا دائرہ
اس عنوان کے تحت جناب اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ سنت کا تمام تر تعلق عملی زندگی سے ہے، یعنی ان چیزوں سے جو کرنے کی ہیں۔ وہ چیزیں اس کے دائرہ سے الگ ہیں جو محض عقائد اور علمی نوعیت کی ہیں، مثلاً ایمانیات،
|