تاریخ اور شان نزول وغیرہ کی قسم کی چیزوں کو سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ [1]
اس سے قبل بھی آں محترم اپنی اسی مخصوص فکر کا اظہار ذرا مختلف انداز سے یوں فرما چکے ہیں:
’’حدیث اور سنت کا دین میں اصلی مقام واضح کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ مختصر طور پر وہ فرق واضح کر دوں جو حدیث اور سنت کے درمیان میں سمجھتا ہوں لیکن عام طور پر لوگ اس کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ حدیث تو وہ ہر قول یا فعل یا تقریر ہے جس کی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ کی جائے، لیکن سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ثابت شدہ اور معلوم طریقہ ہے جس پر آپ نے بار بار عمل کیا ہو، جس کی آپ نے محافظت فرمائی ہو، جس کے حضور عام طور پر پابند رہے ہوں۔‘‘ [2]
اصحاب لغت، فقہاء، محدثین اور علمائے اصول کے نزدیک ’’سنت‘‘ کی معروف لغوی اور اصطلاحی تعریف اوپر کے صفحات میں گزر چکی ہے، اگر ان اصحاب فن کی مصطلح و معروف تعریف پر نگاہ ڈالی جائے تو ظاہر ہے کہ جناب اصلاحی صاحب کا بیان کردہ ’’سنت کا دائرہ‘‘ نہایت تنگ نظر آئے گا۔ آں محترم نے ’’سنت‘‘ کے مفہوم کو سکیڑ کر اس قدر مختصر اور محدود کر دیا ہے کہ اس کا تعلق صرف ان چند عبادات و اعمال ہی سے رہ جائے گا جو علی الاستمرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ ایسی صورت میں سیاست، معیشت، معاشرت اور معاملات وغیرہ جیسے اہم ترین شعبہ ہائے زندگی کے بیشتر گوشے ’’سنت‘‘ کی رہنمائی سے یقیناً خالی رہ جائیں گے۔ لہٰذا جناب اصلاحی صاحب کی بیان کردہ ’’سنت‘‘ کی تعریف جو منطقی ہے نہ عرفی، کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بطلان کے چند دلائل ذیل میں خود اصلاحی صاحب کی مختلف تحریروں سے پیش خدمت ہیں:
1۔ زیر مطالعہ باب کے تحت صرف چند صفحات قبل خود جناب اصلاحی صاحب ’’سنت‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرما چکے ہیں:
’’ہمارے زیر بحث اس وقت سنت نبوی ہے۔ یعنی وہ طریقہ جو آپ نے بحیثیت معلم شریعت اور بحیثیت کامل نمونہ کے، احکام و مناسک کے ادا کرنے، اور زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پسند کے سانچہ میں ڈھالنے کے لئے عملاً اور قولاً لوگوں کو بتایا اور سکھایا – الخ۔‘‘ [3]
ان سطور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل ’’نمونہ‘‘ کے ساتھ ’’معلم شریعت‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کوئی بھی معلم ہر چیز خود بار بار کر کے نہیں دکھاتا بلکہ تعلیم کے دوران بہت سی چیزیں زبانی
|