بھی بتاتا اور سکھاتا ہے۔ چنانچہ ان سطور میں جو طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عملاً اور قولاً لوگوں کو بتایا اور سکھایا‘‘ اسے سنت قرار دیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ سنت کا تعلق صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ اعمال سے نہیں بلکہ آپ کے ثابت شدہ اقوال و تقاریر سے بھی ہے جیسا کہ جناب اصلاحی صاحب کی اس منقولہ عبارت سے مستفاد ہوتا ہے۔
2۔ ذرا آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب ’’منکرین سنت سے سوال‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:
’’—چند حدیثوں کے انکار کو انکار سنت کے مترادف سمجھ لیا گیا اور پھر منکرین حدیث نے حدیث کے خلاف جو شبہات ایجاد کئے، وہ انہوں نے سنت پر بھی پھیلا دئے، حالانکہ سنت کا انکار جیسا کہ ہم نے عرض کیا، خود قرآن کے انکار کے ہم معنی ہے۔‘‘ [1]
اور
’’اصلاً یہ فتنہ چند الجھن پیدا کرنے والی حدیثوں سے اٹھا۔ نہ مدافعت کرنے والے یہ اندازہ کر سکے کہ انہیں کس چیز کی مدافعت کرنی ہے اور وہ کس محاذ پر اپنا زور صرف کر رہے ہیں – حامیان حدیث نے بلاوجہ حدیث کے ساتھ سنت کو بھی ہدف پر لا کھڑا کیا۔‘‘ [2]
اصلاحی صاحب کے ان دونوں اقتباسات کے مطالعہ سے پہلی بات تو یہ ظاہر ہوتی ہے کہ آں محترم کی نگاہ میں کسی دوسرے مفہوم پر ’’سنت‘‘ کا اطلاق درست نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آں موصوف کی نگاہ میں جو اہمیت ’’سنت‘‘ کو حاصل ہے وہ ’’حدیث‘‘ کو نہیں ہے، اور ’’سنت‘‘ کی یہ اہمیت بھی صرف اسی مفہوم کو حاصل ہے جسے آنجناب نے پوری امت سے اختلاف کرتے ہوئے ازخود متعین فرمائی ہے۔ تیسری بات یہ کہ علم نبوی کی مدافعت کرنے والے علماء نے خواہ مخواہ اور ’’بلاوجہ‘‘ ہی حدیث کے دفاع پر اپنی انرجی (توانائی) ضائع کی، کیونکہ (غالباً) اصلاحی صاحب کے نزدیک حدیث کے دفاع کی سرے سے نہ پہلے کوئی ضرورت تھی اور نہ اب ہے، فانا للہ و انا الیہ راجعون۔ لیکن راقم کے نزدیک تو ان مدافعین و حامیان حدیث کی مساعی ایک بڑی سعادت تھی بلکہ ان کا مقام تو حسب بشارت نبوی ان شاء اللہ یہ ہے کہ: ’’يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين و انتحال المبطلين و تأويل الجاهلين‘‘[3]یعنی ’’اس علم (حدیث) کے حامل ایک دوسرے کے پیچھے ہمیشہ
|