ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
1- [مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا][1] (ترجمہ: ’’جس آیت کو ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کے مثل ہی (کوئی دوسری چیز) لے آتے ہیں۔‘‘)
2- [وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ][2] (ترجمہ: ’’اور جب ہم ایک آیت کو بدل دیتے ہیں دوسری کی جگہ۔‘‘)
(نوٹ: واضح رہے کہ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ بھی اثبات نسخ کے لئے اس آیت کو ہی قابل رجوع سمجھتے ہیں)۔ [3]
3- [قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ][4] (ترجمہ: ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ یہ میرے لئے نہیں کہ میں بدل دوں اس (قرآن) کو اپنی طرف سے، میں تو صرف اسی کا اتباع کرتا ہوں جو کہ مجھ پر بذریعہ وحی بھیجا جاتا ہے)۔‘‘
(ملاحظہ: واضح رہے کہ جو بعض لوگ نسخ قرآن، صرف قرآن سے ہی جائز سمجھتے ہیں وہ بھی انہی آیات سے احتجاج کرتے ہیں)۔
(ب) متکلمین، اشاعرہ و معتزلہ اور بعض فقہاء کی رائے:
جمہور متکلمین، اشاعرہ و معتزلہ اور فقہاء میں سے امام مالک و امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ کے اصحاب اس بات کے قائل ہیں کہ سنت متواترہ سے نسخ القرآن عقلاً جائز ہے، لیکن اس کے وقوع کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ [5]
علامہ ابن الفورک نے ’’مقالات الأشعریین‘‘ کی شرح میں لکھا ہے:
’’قرآن کے واضح احکام کو سنت متواترہ سے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے شیخ ابو الحسن اشعری اسی طرف گئے ہیں۔‘‘ [6]
علماء کے اس طبقہ کی رائے کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے:
’’(ان کے نزدیک) سنت مشہورہ سے نسخ قرآن جائز ہے۔‘‘ [7] لیکن ’’خبر واحد سے نسخ الکتاب جائز نہیں ہے۔‘‘ [8]
|