ان کے مابین جمع و تطبیق کی سعی کی جائے۔‘‘
علامہ حمزہ فناری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن السنة لا تصلح ناسخة نظم الكتاب لتقوم مقامه في الإعجاز و صحة الصلوة وغيرهما‘‘[1]یعنی ’’سنت نظم قرآن کے نسخ کے لئے مناسب نہیں ہے کیونکہ اعجاز اور صحت نماز وغیرہ میں اس کا مقام (قرآن سے فروتر ہے)۔‘‘ لیکن خود شوافع میں سے علامہ سبکی رحمہ اللہ وغیرہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے قول سے مختلف کیا ہے اور یہ تأویل پیش کی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی ہرگز یہ مراد نہ تھی کہ حدیث کی حیثیت بالکل ثانوی ہے یا سنت نسخ قرآن کے باب میں قطعاً غیر مؤثر ہے۔ بعض دوسرے حضرات نے یہ تأویل پیش کی ہے کہ:
’’إن السنة لا تنسخ الكتاب إلا و معها كتاب يؤيدها‘‘ یعنی سنت صرف اس وقت کتاب اللہ کو منسوخ کر سکتی ہے جبکہ قرآن کی کسی دوسری آیت سے اس کی تائید ہو سکتی ہو۔ لیکن فقہائے حنفیہ میں سے ابن ھمام اور امیر بادشاہ وغیرھما نے علامہ سبکی رحمہ اللہ وغیرہ کی اس تاویل پر یوں کلام کیا ہے:
’’إن الشافعي منعه قولا واحدا وما صح من تأويل السبكي لعبارته باطل‘‘[2]یعنی ’’امام شافعی رحمہ اللہ نے نسخ قرآن سے بیک قول منع کیا ہے۔ ان کی عبارت کے متعلق علامہ سبکی رحمہ اللہ کی بیان کردہ تاویل غیر صحیح اور باطل ہے۔‘‘
علامہ کیاالھراسی رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف پر بہت کھلے الفاظ میں تردید کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’هفوات الكبار علي أقدارهم‘‘[3]یعنی ’’بڑے لوگوں کی ہفوات بھی ان کی طرح قدآور ہوتی ہیں۔‘‘
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علماء کی ایک بڑی جماعت نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس مسلک کا شدت سے انکار کیا ہے۔‘‘ [4]
اور نواب صدیق حسن خاں قنوجی بھوپالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وليس بصحيح والحق جواز نسخ الكتاب بالسنة‘‘[5]یعنی ’’امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے درست نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ سنت سے نسخ الکتاب جائز ہے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال حضرات اپنے موقف پر جن آیات سے استدلال کیا کرتے
|