کہلانے کی مستحق ہے۔
غیر محقق خبروں پر بلا روک ٹوک ’’حدیث نبوی‘‘ کا اطلاق کرنا انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے کہ اس میں کذب کا احتمال موجود ہوتا ہے اور کون ایسا مسلم ہے جو کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے جائز سمجھتا ہو۔ جن بعض وضاعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ بیانی کی جسارت کی ہے ان کا جہنمی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متواتر ارشادات سے ثابت ہے۔
’’اخبار نبوی‘‘ کو وضاعین کی اسی فتنہ انگیزی سے محفوظ و مصون رکھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہر ’’خبر‘‘ کے متن کی روایت کے ساتھ اس کے مخبرین کے احوال و کوائف کی مکمل چھان بین کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے تاکہ ’’اخبار نبوی‘‘ پر سے ’’کذب‘‘ کا شائبہ تقریباً معدوم ہو جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ راقم کے نزدیک ’’خبر‘‘ اور ’’حدیث‘‘ کے مابین عموم و خصوص کی نسبت ہے کیونکہ ہر ’’خبر‘‘ کا ’’حدیث‘‘ ہونا لازم نہیں جبکہ ہر ’’حدیث‘‘ پر ’’خبر‘‘ یا زیادہ محتاط الفاظ میں ’’خبر نبوی‘‘ یا اخبار نبوی کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، واللہ اعلم۔ افسوس کہ جناب اصلاحی صاحب اخبار نبوی میں صدق کے ساتھ کذب کے احتمالی وجود کے بھی قائل ہیں جیسا کہ آں محترم کے منقولہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے، لیکن اس واہمہ سے تو پورا ذخیرہ احادیث ہی مشتبہ اور ناقابل اعتماد قرار پا جاتا ہے، فإنا للہ و انا إلیہ راجعون۔ مزید لائق افسوس اصلاحی صاحب کا یہ قول ہے کہ ’’اسی بنیاد پر احادیث کو ظنی بھی کہتے ہیں۔‘‘
احادیث کے ’’ظنی‘‘ ہونے کی حقیقت:
بلاشبہ بعض فقہاء و محدثین نے قرآن کریم کے مقابلہ میں حدیث کو ظنی ماخذ شریعت بتایا ہے، لیکن ’’حدیث‘‘ کو ’’ظنی‘‘ قرار دینے سے ان کی مراد ہرگز نہ تھی کہ حدیث کی صحت مشکوک ہوتی ہے یا اس میں صدق کے ساتھ کذب کا احتمال بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اصرار کرے کہ فی الواقع ان کی مراد یہی تھی تو اس کا مطلب حدیث سے بدظن کرنے کی کوشش کے سوا اور کیا لیا جا سکتا ہے؟ یہ غلط فہمی صرف انہی لوگوں کو لاحق ہوتی ہے جو ’’ظن‘‘ کی حقیقت سے لاعلم ہوتے ہیں۔ جس طرح اردو زبان میں ’’ظن‘‘ کے دو مفہوم شائع ہیں، یعنی محمود (حسن ظن) اور مذموم (سوء ظن)، ٹھیک اسی طرح یہ لفظ شریعت میں بھی دو مختلف مفہوم کا حامل ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر ’’ظن‘‘ کو ’’علم و یقین‘‘ کے معنی میں، بعض جگہ ’’گمان غالب‘‘ کے معنی میں اور بعض جگہ ’’وہم، شک اور شبہ‘‘ کے معنی میں بولا گیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر ’’ظن‘‘ مذموم نہیں بلکہ اس کے صرف اسی مفہوم کی مذمت کی گئی ہے جو ’’وہم و شک‘‘ کے ہم معنی ہے، لیکن جہاں ’’ظن‘‘ و ’’علم یقین‘‘ یا ’’گمان غالب‘‘
|