Maktaba Wahhabi

179 - 360
کے مفاہیم کا حامل ہو اس کے مقام مدح ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟ متعدد اصحاب لغت نے بھی ’’ظن‘‘ کو مندرجہ بالا ہر دو مفاہیم سے عبارت بتایا ہے یعنی علامات و آثار کی قوت کے اعتبار سے ’’درجہ علم و یقین‘‘ کا مساوی اور ضعف علامات کے مطابق ’’درجہ وہم‘‘ کے برابر، لیکن یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ ان شاء اللہ آگے ’’اخبار آحاد کی حجیت‘‘ (باب ششم) کے زیر عنوان اس موضوع پر مفصل روشنی ڈالی جائے گی۔ پس معلوم ہوا کہ جن فقہاء و محدثین نے حدیث کو ’’ظنی‘‘ کہا ہے ان کے نزدیک ’’ظن‘‘ کے اول الذکر معنی ہی مراد ہیں۔ جناب شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں: ’’فالظن الذي تفيده الأخبار إنما هو القوي الراجع المقارب لليقين لا الضعيف المرجوح‘‘ [1] یعنی ’’(اخبار آحاد) جس ظن کا فائدہ دیتی ہیں اس سے مراد راجح اور غالب ظن ہے جو کہ علم و یقین کی حد کے قریب ہوتا ہے نہ کہ مرجوح اور کمزور ظن (جو کہ وہم و شبہ کا ہم معنی ہوتا ہے)۔‘‘ علمائے اصول بھی اسی بات کے قائل ہیں چنانچہ جناب شبیر احمد عثمانی صاحب ناقل ہیں: ’’المتواتر يفيد علم اليقين والمشهور يفيد علم الطمانية و خبر الواحد يفيد علم غالب الرأي‘‘ [2] یعنی ’’حدیث متواتر سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے، حدیث مشہور سے علم اطمینان اور خبر واحد سے گمان غالب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اس بارے میں راقم کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ جب فتنہ انکار حدیث کی مادر ایجاد (یعنی اوہام و وساوس) نے کاروباری مشغلہ کی صورت اختیار کر لی تو غیر علمی زبانوں پر متعارف علمی اصطلاحات، غیر اصطلاحی معانی پر بھی استعمال کی جانے لگیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے سادہ لوح مسلمان لغزش کا شکار ہو گئے۔ انہی غیر اصطلاحی معانی پر استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ’’ظن‘‘ بھی ہے۔ حدیث کے خلاف اس علمی اصطلاح کو نہایت چابک دستی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے یہ شبہ عام کیا گیا ہے کہ احادیث ’’ظنی‘‘ ہیں اور ’’ظن‘‘ کو تو اسلام میں ناپسند کیا گیا ہے۔ افسوس کہ علوم حدیث سے نابلد بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح جناب اصلاحی صاحب بھی اس معاملہ کی تہ تک نہ پہنچ سکے اور لغزش کا شکار ہو گئے۔
Flag Counter