ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے۔‘‘
اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الحاصل آیت: [وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ]عند الحنفیہ بلاشبہ عام مخصوص منہ البعض ہے پس حدیث متفق علیہ: ’’لَا صَلاةَ لِمَن لم يَقرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ‘‘ سے اس آیت کی تخصیص کی جائے گی اور اس آیت کے حکم سے قرأت فاتحہ خلف امام خارج کی جاوے گی اور اگر فرض کیا جاوے کہ یہ آیت عندا لحنفیہ عام مخصوص البعض نہیں ہے تو بھی اس کی تخصیص احادیث قرأت خلف امام سے کی جاوے گی کیونکہ عامہ فقہاء اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے نزدیک کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے۔‘‘ [1]
برائے تخصیص عموم چند مفید باتیں
1- ’’ظاہر عموم پر عمل لازم ہے حتی کہ دلیل اس کی تخصیص پر دلالت کرتی ہو۔‘‘ [2]
2- ابن حاجب نے مخصص پر بحث و نظر سے قبل عموم پر عمل کرنے کی ممانعت پر اجماع نقل کیا ہے لیکن اس پر یوں تعقب کیا گیا ہے کہ ’’ابو اسحاق اسفرائینی اور ابو اسحاق شیرازی نے اس قول کے خلاف حکایت کی ہے۔ حنفیہ عموم کے لئے بہرحال وجوب انقیاد کے قائل ہیں۔ ابن شریح، ابن خیران اور قفال کا قول ہے کہ اس پر بحث واجب ہے۔‘‘ [3]
3- ’’تخصیص احتمال سے ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ [4]
4- ’’تخصیص نسخ کے دعویٰ سے اولی ہے۔‘‘ [5]
5- ’’عموم پر بقا اصل ہے حتی کہ خصوص ثابت ہو جائے۔‘‘ [6]
6- ’’اگر دلیل اجازت دیتی ہو تو تخصیص عموم غیر مستنکر ہے۔‘‘ [7]
7- ’’منطوق قرآن کے خصوص سے عموم مفہوم سنت کی تخصیص جائز ہے۔‘‘ [8]
8- ’’بعض کے نزدیک عموم متواتر کی عموم آحاد سے تخصیص محل نظر ہے۔‘‘ [9]
9- ’’بعض کے نزدیک عموم کی قیاس سے تخصیص اصول میں جائز عمل ہے۔‘‘ [10]
چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نکاح میں ولی کی شرط کے اصلاً قائل نہیں ہیں اور عورت کا ولی کی اجازت کے بغیر
|