Maktaba Wahhabi

318 - 360
علامہ آمدی رحمہ اللہ نے بھی ’’الإحکام فی أصول الأحکام‘‘[1]میں ائمہ اربعہ سے اس کا جواز نقل کیا ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’السؤال الثالث وهو المعتمد أن تقول الفقهاء أجمعوا علي أنه يجوز تخصيص عموم القرآن بخبر واحد فهب أن عموم قوله تعاليٰ: [وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا﴾، يوجب سكوت المأموم عند قرأة الإمام إلا أن قوله عليه الصلاة والسلام: لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، أخص من ذلك العموم و ثبت أن تخصيص عموم القرآن بخبر الواحد لازم فوجب المصير إلي تخصيص هذه الآية بهذا الخبر و هذا السؤال حسن‘‘ [2] یعنی ’’تیسرا سوال یہ ہے اور یہی معتمد ہے کہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد سے قرآن کے عمومی حکم کی تخصیص جائز ہے۔ پس آیت: [وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ]الخ کا عموم امام کی قرأت کے وقت مأموم (یعنی مقتدی) پر سکوت کو واجب قرار دیتا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی، تو یہ ارشاد نبوی اس عام حکم سے زیادہ خاص ہے، اور یہ چیز ثابت ہے کہ عموم قرآن کی خبر واحد سے تخصیص لازم ہے، پس اس آیت کی بھی اس خبر کے ساتھ تخصیص واجب ہے، اور یہ سوال بہتر ہے۔‘‘ تفسیر نیشاپوری میں ہے: ’’وقد سلم كثير من الفقهاء عموم اللفظ إلا أنهم جوزوا تخصيص عموم القرآن بخبر الواحد و ذلك ههنا قوله صلي اللّٰه عليه وسلم:لاَ صَلاَةَإِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ‘‘ [3] علامہ ابن الحاجب ’’مختصر الأصول‘‘ اور اس کی شرح میں باعتضاد فرماتے ہیں: ’’إن تخصيص عام القرآن بالمتواتر جائز اتفاقا و أما بخبر الواحد فقال بجوازه الأئمة الأربعة وقال ابن أبان من الحنفية إنما يجوز إذا كان العام قد خص من قبل بدليل قطعي منفصلا كان أو متصلا وقال الكرخي إنما يجوز إذا كان العام قد خص من قبل بدليل منفصل قطعيا كان أو ظنيا‘‘ [4] جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی صاحب فرماتے ہیں: ’’و أما بخبر واحد فقال بجوازه الأئمة الأربعة‘‘[5]یعنی ’’خبر واحد سے عام کی تخصیص
Flag Counter