نسخ قرآن پر تمام اہل شرائع کا اتفاق
متقدمین علماء ہوں یا متأخرین تمام وقوع نسخ کے قائل چلے آئے ہیں۔ باوجود تھوڑے بہت اختلاف کے وقوع نسخ کا سوائے احناف و حنابلہ کی ایک جماعت کے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ ان منکرین کا کہنا ہے کہ ’’إذا انتفي الحكم فلا فائدة في التلاوة‘‘[1]یعنی ’’جب حکم کی نفی ہو گئی تو تلاوت کے باقی رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے‘‘ – لیکن اس کے برخلاف نسخ کے وجود وقوع کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ و مفسرین رحمہم اللہ کے اس قدر آثار و اقوال موجود ہیں کہ ان کا یہاں نقل کرنا محال ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں درست فرمایا ہے: ’’واتفقت أهل الشرائع علي جواز التنسيخ و وقوعه‘‘ یعنی ’’تمام اہل شرائع کا نسخ کے جواز اور وقوع دونوں پر اتفاق ہے۔‘‘
نسخ قرآن کا انکار ایک جدید فتنہ ہے
ماضی قریب میں مفتی محمد عبدہ مصری (1905ھ)، سرسید احمد خاں (1898ء)، تمنا عمادی مجیبی پھلواروی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق (صاحب دو اسلام)، جناب عمر احمد عثمانی بن ظفر احمد تھانوی عثمانی (صاحب فقہ القرآن)، جناب رحمۃ اللہ طارق (صاحب تفسیر منسوخ القرآن)، جناب غلام اللہ خاں اور جناب حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی (صاحب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت) وغیرہم نے قرآن کے ہر قسم کے نسخ کا انکار کیا ہے، حتیٰ کہ ان کے نزدیک قرآن کا قرآن سے نسخ بھی جائز نہیں ہے۔ یہاں ان تمام حضرات کے اقوال و اقتباسات نقل کرنا طول محض کا سبب ہو گا لہٰذا ذیل میں صرف ایک اقتباس بطور مثال پیش خدمت ہے:
جناب سرسید احمد خاں فرماتے ہیں:
’’ہم ان باتوں پر اعتقاد نہیں رکھتے اور یقین جانتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے اترا وہ بے کم و کاست موجودہ قرآن میں جو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں تحریر ہو چکا تھا موجود ہے اور کوئی حرف بھی اس سے خارج نہیں ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ ہے۔‘‘ [2]
اور محمد عبدہ مصری کی رائے کے لئے ’’تفسیر المنار‘‘[3]کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ لیکن ہمارے نزدیک ان حضرات کے دلائل (جو دراصل دینی دلائل سے زیادہ مغالطات و شبہات ہیں) اس قدر قوی نہیں ہیں کہ جس قدر اس بارے میں ان لوگوں کو اصرار ہے۔ چونکہ یہ ایک علیحدہ اور مستقل موضوع ہے، لہٰذا ہم یہاں اس بحث سے صرف نظر کرتے ہیں۔
|