Maktaba Wahhabi

321 - 360
بصورت ’’زیادت علی الکتاب‘‘، خبر واحد کو رد کرنے کے بطلان پر محققین کے دلائل حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بصورت ’’زیادت علی القرآن‘‘ خبر واحد کو رد کرنے والوں کی زبردست تردید فرمائی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ وغیرہما نے ان تمام دلائل کو اپنی کتب میں پوری تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے، جس کا خلاصہ ہدیہ قارئین ہے: ’’قرآن کے ساتھ سنت تین طرح کی ہو سکتی ہے: ایک وہ جو ہر اعتبار سے قرآن کے موافق ہو، دوسری وہ جو کہ قرآن کی مراد کی تبیین کرتی ہو، اور تیسری وہ جو ان احکام پر دلالت کرتی ہو جن پر قرآن کریم ساکت ہے۔ اور یہ تیسری قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے احکام پر مشتمل ہیں، لہٰذا ان کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت صرف انہی معاملات میں کرے جو قرآن کے موافق ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص اطاعت کا کوئی مطلب ہی باقی نہ رہا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: [مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ]یعنی ’’جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ قرآن سے زائد صرف انہی احکام کو قبول کرے گا جو متواتر یا مشہور ہوں تو وہ اس حکم الٰہی کی خلاف ورزی کرتا ہے، حالانکہ وہی لوگ کسی عورت کے ساتھ اس کی عمہ (پھوپھی) اور خالہ کو جمع کرنے کی حرمت، رضاعی نسبت سے حرام رشتوں کی تحریم، خیار شرط، شفعہ، حضر میں رھن، دادی کی میراث، تخییر الأمۃ، حائضہ کے لئے صوم و صلاۃ کی ممانعت، رمضان میں روزہ دار کے جماع کر لینے پر کفارہ کے وجوب، وفات پر معتدہ کا وجوب احداد، کھجور کی نبیذ سے وضو کا جواز، ایجاب الوتر، کم از کم دس درہم مقدار مہر کی تعیین، پوتی کا بیٹی کے ساتھ وراثت میں چھٹا حصہ، مجوس سے جزیہ لینا، دوسری بار چور کا پیر کاٹنا، استبراء المسبيه بحيضة وغیرہ کے قائل ہیں حالانکہ یہ تمام احادیث آحاد ہی تو ہیں بلکہ ان میں سے بعض ثابت اور بعض غیر ثابت بھی ہیں الخ۔‘‘ [1] علمائے حنفیہ کے نزدیک تخصیص معتبر ہونے کی چند مثالیں اس بارے میں متعدد مثالیں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے مندرجہ بالا اقتباس میں گزر چکی ہیں، مزید چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: 1- مشہور حنفی عالم ملا جیون قرآن کریم کی آیت [ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا][2] کو عند الحنفیہ عام مخصوص منہ البعض بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
Flag Counter