خود شادی کر لینا جائز سمجھتے ہیں، اور اسے بیع پر قیاس کر کے احتجاج کرتے ہیں۔ اشتراط ولی کے بارے میں جو احادیث وارد ہیں مثلاً ’’لَا نِكاحَ إلَّا بوَليٍّ‘‘ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، احمد) یعنی ’’جس نکاح میں ولی نہ ہو وہ نکاح ہی نہیں ہے۔‘‘ اور”أيُّما امرأةٍ نكحتْ بغيرِ إذن وليّها ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ۔۔الخ (ابوداؤد، احمد، الدارمی) یعنی ’’جو عورت بغیر ولی کے اپنا نکاح خود کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔‘‘ وغیرہ، تو امام رحمہ اللہ انہیں چھوٹی بچی کے نکاح پر محمول کرتے ہیں۔ اس طرح یہاں قیاس سے عموم حدیث کی تخصیص ہوئی جو کہ عند الحنفیہ اصول میں درست ہے۔
10- ’’عموم کی قرائن کے ساتھ تخصیص جائز ہے۔‘‘ [1]
11- ’’منصوص کا حکم خاص، ظاہر و عام سے ارجح ہے۔‘‘ [2]
12- ’’ عام پر عطف خاص، اہتمام بالخاص کا فائدہ دیتا ہے۔‘‘ [3]
13- ’’خصائص قیاس سے ثابت نہیں ہوتے۔‘‘ [4]، چنانچہ امام رازی اپنی ’’تفسیر الکبیر‘‘ میں آیت: [فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا]کے تحت فرماتے ہیں:
’’ظاہر آیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نص کی قیاس کے ساتھ تخصیص جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور حکم کی علی الاطلاق متابعت واجب ہے اور اس سے کسی دوسری طرف عدول جائز نہیں ہے – اور یہ آیت عموم قرآن اور خبر کی قیاس پر تقدیم کو واجب قرار دیتی ہے، الخ۔‘‘ [5]
14- ’’گو علمائے حنفیہ بالعموم خبر واحد سے عام کی تخصیص کو جائز نہیں سمجھتے مگر یہ بات تو ان کے نزدیک بھی مسلم ہے کہ جب عام کی تخصیص ثابت ہو جائے تو عام قطعی نہیں رہتا۔‘‘ [6]
15- ’’علمائے حنفیہ کے برخلاف نص قرآنی یا سنت قطعیہ پر زیادت ہونا خبر صحیح کے لئے مضر نہیں ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر خبر زیادت کے ساتھ وارد ہو تو اس سے نسخ لازم آتا ہے لہٰذا غیر مقبول ہے۔ لیکن اس کا قبول کرنا حق ہے کیونکہ زیادت مزید (علم) کے لئے غیر منافی ہے، چنانچہ مقبول ہے۔ اسی طرح بعض حنفیہ کے برخلاف اگر کوئی خبر کتاب یا سنت کے عموم کی تخصیص میں وارد ہو تو وہ بھی مقبول ہے اور اسی طرح اگر کوئی خبر کتاب یا سنت متواترہ کے مطلق علم کی تقیید میں وارد ہو تو وہ بھی مقبول ہے۔‘‘ [7]
|