ظاہر ہے کہ یہاں بھی صحابی رسول اہل زبان ہونے کے باوجود محض زبان کی مدد سے اس آیت کا صحیح مطلب و مقصد نہ سمجھ پائے تھے۔
اس ضمن میں جناب مفتی محمد شفیع صاحب ’’قرآن فہمی کے لئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے، حدیث کا انکار در حقیقت قرآن کا انکار ہے‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:
[وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ]اس آیت میں ’’ذکر‘‘ سے مراد باتفاق قرآن کریم ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں مامور فرمایا ہے کہ آپ قرآن کی نازل شدہ آیات کا بیان اور وضاحت لوگوں کے سامنے کر دیں اس میں اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف اور احکام کا صحیح سمجھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر موقوف ہے۔ اگر ہر انسان صرف عربی زبان اور عربی ادب سے واقف ہو کر قرآن کے احکام کو حسب منشاء خداوندی سمجھنے پر قادر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان و توضیح کی خدمت سپرد کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔‘‘ [1]
پس معلوم ہوا کہ انسان کو زبان سے زیادہ سنت کا جس قدر وسیع علم ہو گا اسی کے مطابق اسے قرآن کو سمجھنے اور اس سے احکام مستنبط کرنے میں آسانی ہو گی۔ جو جس قدر علم حدیث سے بے بہرہ ہو گا، اسی طرح فہم قرآن سے بھی محروم رہے گا۔
فہم قرآن سنت کا محتاج ہے
قرآن کریم میں بعض آیات اس طرح مذکور ہیں کہ جن کا صحیح مفہوم متعین کرنا بغیر احادیث کی مدد کے قطعاً ناممکن ہے اس کی دو مثالیں اوپر الانعام کی آیت (82) اور البقرۃ کی آیت (187) میں لفظ ’’ظلم‘‘ کی تعیین اور ’’تحدید وقت سحر‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہیں۔ فہم قرآن میں سنت کی ضرورت اور اہمیت کی چند اور مثالیں پیش خدمت ہیں:
سورہ توبہ۔ آیت (36) میں حرمت کے چار ماہ کی تعیین کا نہ ہونا، سارق و سارقہ کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم (سورۃ المائدہ: 38) میں نصاب سرقہ اور قطع ید کی مقدار کی عدم تعیین، آیت تیمّم میں لفظ ’’ید‘‘ کی وضاحت کا نہ ہونا، حالانکہ حدیث میں اس کی تصریح یوں مذکور ہے:
’’التيمم ضربة للوجه والكفين‘‘ (یعنی ’’تیمّم‘‘ ایک ضربہ ہے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں کے لئے)۔ اسی طرح سورۃ الانعام کی آیت (145) میں مردہ جانور، بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور غیراللہ کے نام سے پکاری گئی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے، لیکن حدیث نے اس کے ساتھ ہر دانت والے درندے، پنجوں والے
|