جب اس دور سعید کی اس قدر مختصر مدت میں شریعت کے بنیادی مآخذ و مصادر کا یہ حشر ہوا تو آج چودہ سو سال بعد تو شریعت کو سرے سے محفوظ اور باقی ہی نہیں رہنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ الحمدللہ آج بھی شریعت جوں کی توں محفوظ ہے اور ان شاء اللہ تاقیام قیامت اسی طرح محفوظ و باقی رہے گی کہ اس کے تحفظ کا وعدہ خود اللہ عزوجل نے فرمایا ہے۔
اب ہم جناب اصلاحی صاحب کی بعض دوسری عبارتوں پر تبصرہ پیش کریں گے۔
مسئلہ نسخ قرآن کے متعلق فراہی مکتب فکر کے نظریات کا جائزہ
نسخ قرآن کے مسئلہ کی سابقۃ الذکر وضاحت کی روشنی میں ہم جناب اصلاحی صاحب اور ان کے پیر و مرشد جناب حمید الدین فراہی صاحب وغیرھما کے افکار و نظریات کا جائزہ لیں گے تاکہ پورے مکتب فراہی کا موقف قارئین کے سامنے آ سکے۔
جناب حمید الدین فراہی صاحب ’’أحکام الأصول‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور محدثین بالعموم حدیث کو قرآن کے لئے ناسخ نہیں مانتے اگرچہ حدیث متواتر ہو۔ جب یہ ائمہ جو حدیث کے معاملہ میں صاحب البیت کی حیثیت رکھتے ہیں، اس بات کے قائل نہیں ہوئے تو ہم اس کے خلاف فقہاء و متکلمین کی رائے کو کوئی وزن نہیں دیتے۔ یہ ماننا کہ رسول، اللہ کے کلام کو منسوخ کر سکتا ہے، ایک فتنہ ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ اس طرح کے مواقع میں تمام تر دخل راویوں کے وہم اور ان کی غلطی کو ہے۔‘‘ [1]
جناب اصلاحی صاحب کے تلمیذ خاص جناب خالد مسعود صاحب اپنے ایک مضمون: ’’حدیث و سنت کی تحقیق کا فراہی منہاج‘‘ کے تحت روایت کو رد یا قبول کرنے میں جناب فراہی صاحب کے پیش نظر رہنے والے اصول پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’7- خبر اگرچہ متواتر ہو، قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ ظن کی بنیاد پر نسخ کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ کرنے کا اصل کام قرآن کے ساتھ سنت کی تطبیق ہے۔‘‘ [2] اسی طرح آں موصوف کے ایک شاگرد جناب جاوید احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں:
’’—رہے دوسرے قسم کے معاملات یعنی وہ جن میں قرآن مجید نے کوئی حکم یا قاعدہ بیان فرمایا ہے، تو ان کے بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ سنت نہ قرآن مجید کے کسی حکم اور کسی قاعدے کو منسوخ کر سکتی ہے اور نہ اس میں کسی نوعیت کا کوئی تغیر و تبدل کر سکتی ہے۔ سنت کو یہ اختیار قرآن مجید نے نہیں دیا ہے۔‘‘ الخ (میزان 1/80-81)
|