Maktaba Wahhabi

338 - 360
امام یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ کے اس قول کا بھی سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ امور و مطلب پر محتمل ہوتی ہیں لیکن سنت ایسی آیات کے تمام محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعیین کر کے اس آیت کا اصل مطلب و مقصد متعین کرتی ہے۔ یہی اس آیت کے بارے میں سنت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس قول سے امام ممدوح کا مقصد و منشا دراصل لوگوں کو اس بات کی تنبیہ کرنا تھا کہ قرآن کریم کے معانی و مطالب أعلم الخلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کون جان سکتا تھا، پھر آں صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ ارشاد فرماتے تھے وہ بھی مبنی بر وحی ہوتا تھا، لہٰذا قرآن کی کسی آیت کے متعلق خود کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے؟ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلہ اور ہر حکم پر عمل کرنا اصلاً قرآن کے ہی فیصلہ و حکم پر عمل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کے قول کی جو ترجمانی جناب اصلاحی صاحب نے فرمائی ہے وہ قطعاً ناقابل قبول ہے۔ اس قول پر تفصیلی بحث زیر مطالعہ باب کے اوائل میں ’’کتاب اللہ پر سنت کے قاضی ہونے کا مطلب‘‘ کے زیر عنوان گزر چکی ہے، ہم قارئین کرام کو دوبارہ اس بحث کو ملاحظہ فرمانے کا مشورہ دیں گے۔ راقم کا ذاتی خیال ہے کہ جناب اصلاحی صاحب کو ان کبار ائمہ حدیث کے بارے میں ’’غلو‘‘ وغیرہ کا جو شبہ پیدا ہوا ہے وہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور اس کے ہم مشرب و ہمنوا لوگوں کی اس فکر سے ماخوذ ہے: ’’ہمارے بعض علماء تو عشق حدیث میں یہاں تک کھو چکے ہیں کہ اللہ کے کلام کو نہ صرف احادیث کا محتاج ٹھہراتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی سنے جاتے ہیں کہ اگر اللہ کا کوئی قول رسول کے قول سے متصادم ہو جائے تو قول خدا کو منسوخ سمجھو۔ یعنی اللہ کے جاری کردہ احکام کو اللہ کی مرضی کے بغیر ایک حدیث بھی منسوخ کر سکتی ہے۔ احادیث کی سینہ زوری اور قرآن کی بیچارگی کا تماشہ کیجئے۔‘‘ [1] جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ بھی قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے کہ ’’یہ دونوں چیزیں یعنی قرآن اور حدیث و سنت ایک دوسرے کی حریف اور ایک دوسرے کے مقابل میں لا کر رکھ دی گئیں‘‘ – کیونکہ جب دور صحابہ میں حدیث کے نام پر رطب و یابس بیان کرنے کی ابتدا ہوئی تو تمام اصحاب علم نے قبول روایات میں حد درجہ حزم و احتیاط کا رویہ اختیار کر لیا تھا۔ ان کی اس احتیاط کو حدیث کے خلاف بیزاری کے اظہار پر ہرگز محمول نہیں کیا جا سکتا کہ جس کے ’’جواب میں رد عمل کے طور پر اس کی حمایت کا غلو پیدا ہوا۔‘‘ اگر جناب اصلاحی صاحب کی بات کو بفرض محال تسلیم کر لیا جائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ دور صحابہ ہی میں نہ صرف قرآن و حدیث کے متعلق غیر متوازن خیالات کا آغاز ہو چکا تھا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو تقریباً سوا سو سال بھی نہ گزرے تھے کہ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی حریف اور ایک دوسرے کے مقابل لا کر رکھ دی گئی تھیں --
Flag Counter