استدراکات
]پیش نظر باب کے عنوان: ’’قرآن و سنت کا باہمی تعلق – اصلاحی صاحب کی نظر میں‘‘ کے تحت ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کی صرف وہی عبارتیں نقل کی گئی تھیں جن پر کہ راقم کو بحث کرنی مقصود تھی اور باقی عبارتوں کو قصداً چھوڑ دیا گیا تھا۔ اگرچہ ایسا کتاب کو غیر ضروری طوالت سے بچانے کی غرض سے ہی کیا گیا تھا لیکن مراجعہ و مقابلہ کے دوران یہ خیال ذہن میں ابھرا کہ کہیں اس سے بعض قارئین کو یہ شبہ نہ گزرے کہ محترم اصلاحی صاحب کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا ہے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی قاری کے پاس سرے سے ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کا کوئی نسخہ ہی موجود نہ ہو یا ہو بھی تو بار بار اس کی ورق گردانی میں دقت محسوس ہوتی ہو، لہٰذا ذیل میں محترم اصلاحی صاحب کے مضمون کی باقی ماندہ عبارتیں بھی بطور ’’استدراکات‘‘ پیش خدمت ہیں۔ قارئین کرام کی سہولت کے پیش نظر ہر عبارت کے شروع میں ان صفحات اور سطور کا حوالہ درج کر دیا گیا ہے جن سے قبل یا بعد ان کو جوڑ کر بہ تسلسل پڑھا جا سکتا ہے۔[
1- ص 328 سطر 6 ’’—ہمیں کوئی خاص اعتراض نہیں ہے‘‘ (سے آگے ملاحظہ فرمائیں) فرماتے ہیں:
’’قرآن اور حدیث و سنت میں نہایت گہرا باہمی تعلق ہے۔ ان کا معنوی تعلق روح اور قالب کا اور ظاہری تعلق اجمال و تفصیل کا ہے۔ دونوں دین کے قیام کے لئے یکساں ضروری ہیں۔ ہم ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔ دونوں کا اتباع اور احترام یکساں واجب ہے۔
قرآن مجید نے زندگی کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس کے صرف چاروں گوشے متعین کر دئیے ہیں، اس کے اندر رنگ بھرنے کا کام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا۔ اس کو ممثل اور مشکل کرنا سنت کا کام ہے۔ قرآن نے دین کے کلیات اور اصول و مبادئ پر جامع بحث کی ہے، لیکن کسی باب میں بھی تفصیلات اس میں نہیں ملتیں۔ ان کے لئے سنت اور حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً عبادات میں نماز کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں تک اس کے فلسفہ دین میں اس کے مقام، اس کے بنیادی ارکان اور زندگی کے معاملات میں مختلف نوعیتوں سے اس کے دخیل ہونے کا تعلق ہے تو یہ چیزیں قرآن سے پوری طرح معلوم ہو جاتی ہیں، لیکن یہ کہ نماز کن اوقات میں پڑھی جائے، کس طرح پڑھی جائے، اس میں کیا پڑھا جائے، کن نمازوں کی حیثیت واجبات کی ہے، کن کی حیثیت نوافل کی ہے۔ ان سب تفصیلات کو جاننے کے لئے ہمیں سنت اور حدیث کے علم کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان امور کے متعلق بس اشارات کی حد تک رہنمائی قرآن سے مل سکتی ہے۔
|