Maktaba Wahhabi

253 - 360
1- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کی حقیقت قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: [وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا][1] یعنی ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام انتہائی راست باز نبی تھے‘‘ – لیکن ایک صحیح حدیث میں مروی ہے: ’’لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ إِلاَّ ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ‘‘[2]یعنی ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین مواقع پر جھوٹ سے کام لیا تھا۔‘‘ بظاہر یہ حدیث قرآن سے متصادم نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیر مطالعہ حدیث قرآن سے کسی طرح متعارض نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں جو تین کذب مذکور ہیں ان میں سے دو قائع کا تذکرہ تو خود قرآن میں موجود ہے اور تیسرے واقعہ کا ذکر بائبل [3] کے علاوہ کتب حدیث میں ہے، پس ان وقائع کا انکار کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک ’’توریہ‘‘ وغیرہ کے ساتھ اس کی تاویل کا تعلق ہے تو یہ اطلاق کذب کو مانع نہیں ہے، نہ اس سے کوئی محذور شرعی لازم آتا ہے اور نہ کسی اصول متفق علیہا کا خلاف ثابت ہوتا ہے، چونکہ ’’توریہ‘‘ و ’’تعریض‘‘ اصل واقعہ کے اعتبار سے صدق پر مشتمل ہوتا ہے لہٰذا شرعاً جائز ہے۔ ’’توریہ‘‘ پر کذب کا اطلاق اس لحاظ سے درست ہے کہ واقع کے مطابق مخاطب کو اصل مقصود باور کرانا نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس حدیث سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت قطعاً داغدار نہیں ہوتی، جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا۔ غالباً امام رازی وہ پہلے شخص ہیں جن کو یہ حدیث پہلی بار کھٹکی تھی اور انہوں نے دبے الفاظ میں اس کے انکار کی کوشش کی تھی، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’انبیاء کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنے سے بدرجہا بہتر ہے کہ اس روایت کے راویوں کی طرف اسے منسوب کیا جائے۔‘‘ [4] اور ’’جب نبی اور راوی میں سے کسی ایک کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنا پڑ جائے تو ضروری ہے کہ اسے نبی کے بجائے راوی کی طرف منسوب کیا جائے۔‘‘ [5] لیکن آں رحمہ اللہ نے اس چیز پر غور نہ فرمایا کہ جن رواۃ سے یہ حدیث مروی ہے، انہی رواۃ سے اور بھی بہت سے احادیث مروی ہیں۔ جس عیب کی بنا پر زیر مطالعہ حدیث کو رد کیا جائے گا لامحالہ اس کا اثر ان کی
Flag Counter