پھر اس قول کی زبردست تردید فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کسی خبر صحیح کے احکام قرآن کے خلاف موجود ہونے کی اصلاً کوئی سبیل نہیں ہے۔ ہر خبر شریعت ہے –ولا سبيل إلي وجه ثالث۔‘‘ [1]
اور جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے استاذ جناب حمید الدین فراہی صاحب بھی جزوی طور پر اسی فکر کے قائل ہیں، چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ صحیح احادیث اور قرآن میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ تاہم میں روایات کو بطور اصل نہیں بلکہ بطور تائید پیش کیا کرتا ہوں۔ پہلے آیت کی تاویل مماثل آیات سے کرتا ہوں، اس کے بعد تبعاً احادیث صحیحہ کا ذکر کرتا ہوں تاکہ ان منکرین کو معارضہ کی راہ نہ ملے جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے۔‘‘ [2]
اوپر ہم نے جناب حمید الدین فراہی صاحب کے متعلق ’’جزوی طور پر اسی فکر کے قائل‘‘ ہونے کا تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ آں موصوف کے نزدیک جو حدیث بظاہر مخالف قرآن وارد ہو وہ اصلاً صحیح ہو ہی نہیں سکتی، اگرچہ وہ اصولاً صحیح قرار پاتی ہو، لہٰذا اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ تعارض کے حقیقی نہیں بلکہ ظاہری ہونے کی آں موصوف کے نزدیک، غالباً کوئی گنجائش نہیں ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’—احکام کی ایسی روایات جن کی بنیاد، نہ قرآن میں ملتی ہو اور نہ اس اضافہ کا قرآن متحمل ہوتا ہو اور وہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہوں یا ان کے ماننے سے قرآن کا جلی یا خفی نسخ لازم آتا ہو ان کو ترک کرنا ضروری ہو گا کیونکہ ان کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ درست نہیں۔ ان احکام کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔‘‘ [3]
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’بعض روایات ایسی بھی نقل ہو گئی ہیں جو قرآن مجید کی اصل کو ڈھانے والی ہیں۔ ایسی روایات کو قبول کرنا خود قرآن کا انکار کرنا ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کو اس کی اصل سے پھیر دیں گے لیکن روایت کی تاویل کی جرأت نہیں کریں گے۔ اس کی خاطر بسا اوقات وہ صرف آیت کی غلط تاویل ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کے نظام کی قطع و برید بھی کر ڈالتے ہیں، حالانکہ جب اصل و فرع میں تعارض ہو تو کاٹنے کی چیز فرع ہوتی ہے نہ کہ اصل۔‘‘ [4]
ذیل میں ہم اس قسم کی بعض احادیث اور ان کے مخالف قرآن ہونے کی حقیقت پر تبصرہ پیش کرتے ہیں:
|