اعلان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰه قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ۔ أخرجه الترمذي وقال هذا حديث حسن صحيح‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک حق والے کو اس کا حق خود دے دیا ہے۔ اس لئے اب کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے۔
اس حدیث میں بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ الفاظ بھی منقول ہیں: ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ إِلَّا أَنْ تجيزه الْورثة‘‘ (جصاص) کسی وارث کے لئے وصیت اس وقت تک جائز نہیں جب تک باقی سب وارث اجازت نہ دیں۔‘‘ [1]
حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ کی تحقیق
جناب رحمت اللہ طارق صاحب نے 1962ء میں ایک کتاب بعنوان ’’تفسیر منسوخ القرآن‘‘ ترتیب دی تھی جو بڑی تقطیع کے تقریباً 906 صفحات پر محیط ہے۔ اس کتاب میں آں جناب نے یہ جداگانہ موقف اختیار کیا کہ قرآن کریم میں کوئی حکم یا آیت سرے سے منسوخ ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں آنجناب نے بزعم خود کبار ائمہ و محدثین مثلاً امام ابن حزم ظاہری، امام ابن کثیر، امام نووی، امام ابن حجر عسقلانی اور قاضی شوکانی وغیرہم رحمہم اللہ کی اغلاط کی نشاندہی کی ہے اور اپنے اس موقف کی تائید میں اکثر و بیشتر تفسیر المنار، ابو مسلم اصفہانی، امام رازی، فناری اور سرسید احمد خاں وغیرہم کی کتب پر ضرورت سے زیادہ اعتماد و انحصار کیا ہے۔ اس کتاب میں آں موصوف نے اپنی عام روش کے مطابق ورثاء کے حق میں بھی فرضیت وصیت کے بارے میں جمہور علماء امت کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ اور حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ کی 34 سندوں کے رواۃ پر صرف جارحین کے اقوال جرح، جو اکثر حالات میں غیر مفسر ہیں، نقل کرتے ہوئے انہیں ’’صفریں‘‘ ثابت کیا ہے، اور بقول آں محترم:
’’اکیلی صفر ایک ہو چاہے لاکھ وہ صفر ہی رہے گی، ہندسے کا کام نہیں دے سکتی۔ صفر مستقل بالذات وجود کی حامل نہیں ہوتی، ہندسہ ہے تو صفر بھی کام دے سکتی ہے اور ہندسہ نہیں تو خالی صفر سے کوئی کام نہیں چل سکتا۔‘‘ [2]
افسوس کہ آنجناب کو ان میں سے بعض رواۃ کے متعلق ائمہ تعدیل کے تحسین و توثیق کے کلمات نظر نہ آئے۔ کسی انسان کے محاسن و توثیق سے چشم پوشی کر کے صرف اس کے متعلق جرح (عیوب) کو اجاگر کرنا علمی تحقیق اور انصاف کے تقاضوں کے صریح خلاف ہے۔ پھر جرح بھی ایسی کہ جو غیر مفسر ہو علماء کے نزدیک قطعاً ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔ کون ایسا شخص ہو گا جس میں کچھ خوبیوں کے ساتھ کچھ عیوب بھی نہ ہوں، لیکن ہر انسان
|