’’أيحسب أحدكم متكئا علي أريكته قد يظن أن اللّٰه لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن ألا و إني والله قد أمرت و نهيت و وعظت عن أشياء إنها مثل القرآن أو أكثر‘‘ [1]
ہم بخوبی یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن و سنت میں سے ہم پر دونوں چیزوں کی اطاعت کے وجوب میں کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے:
[وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ [٣]إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ][2] ’’اور نہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں۔ ان کا ارشاد تو نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔‘‘
اور اللہ عزوجل فرماتا ہے:
[ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰه أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ][3] ’’تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔‘‘
اور ارشاد ہوتا ہے:
[وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّٰه لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا][4] ’’اور اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بکثرت اختلاف پاتے۔‘‘
ان آیات میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو واضح طور پر اس بات کی اطلاع دی ہے کہ اس کے نبی کا کلام اس کے رب کی مراد کے عین موافق ہے، ان کے درمیان نہ کسی قسم کا تعارض ہے نہ اختلاف، اور نہ ہی کوئی سنت رسول باعتبار اہمیت و وجوب قرآن سے کسی طرح کم تر ہے۔ اس سے ان لوگوں کو بطلان ظاہر ہے جو سنت سے قرآن کی تخصیص کے عدم جواز کے قائل ہیں۔
تخصیص عموم قرآن کی چند مثالیں
قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی سنت آحاد کے ذریعہ تخصیص پر علماء امت کا اتفاق ہے مثلاً:
1- اللہ تعالیٰ نے نکاح میں محرمات کے ذکر کے بعد فرمایا ہے: [وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ][5] یعنی ’’اور تمہارے لئے ان عورتوں کے سوا باقی عورتیں حلال کی گئی ہیں‘‘ – لیکن امام نووی ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث کہ ’’نَهَى النَّبِي صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ المَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَ المَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا‘‘ یعنی
|