Maktaba Wahhabi

325 - 360
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘[1]– بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’احتج الجمهور بهذه الأحاديث و خصوا بها عموم القرآن في قوله تعاليٰ [وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾وقد ذهب الجمهور إلي جواز تخصيص عموم القرآن بخبر الآحاد ۔۔الخ‘‘ [2] بقول جناب خالد مسعود صاحب، جناب حمید الدین فراہی صاحب نے اپنی مستقل کتاب ’’أحکام الأصول‘‘ میں یہ دکھایا ہے کہ ’’خالہ اور پھوپھی کے محرمات میں ہونے کی احادیث قرآنی نصوص سے کس طرح مستنبط ہیں۔‘‘ [3] 2- آیت قرآن: [يُوصِيكُمُ اللّٰه فِي أَوْلَادِكُمْ][4] یعنی ’’اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں –‘‘ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’لَا يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا‘‘[5]یعنی ’’قاتل کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ (ملاحظہ: اگرچہ ترمذی کی سند میں راوی اسحاق بن ابی فروۃ متروک ہے لیکن بیہقی نے حضرت عمرو بن عباس وغیرہما سے ایسے آثار نقل کئے ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ قاتل کے لئے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے) اور ایک دوسری حدیث: ’’لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ‘‘[6]یعنی ’’مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ نیز ارشاد نبوی: ’’لَا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ‘‘[7]– کے ساتھ متفقہ طور پر مخصص قرار دیا ہے۔ 3- اس کی تیسری مثال قرآن کریم کی آیت: [وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا][8] ہے یعنی ’’اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے سو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو –‘‘ اگر رسول
Flag Counter